کورونا وبا کے دوران پنجاب بھر میں 10 لاکھ بچوں نے سکول کو خیر باد کہہ دیا.وزیرتعلیم پنجاب

حکومت کے پیش کردہ اعدادوشمار پر بھی یقین کرنا ممکن نہیں ‘اعدادوشمار کے ہیر پھیر سے تعداد کو پورا کردیا جائے گا‘لاکھوں بچے دوکانوں‘ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں.ماہرین

تازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم فروری ۔2021ء) کورونا وبا کے دوران پنجاب بھر میں 10 لاکھ بچوں نے سکول کو خیر باد کہہ دیا جبکہ پورے ملک میں تعداد 1کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے. پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکول چھوڑ کر چلے جانے والے بچوں کو اگلے تین سے چار ماہ میں سکول واپس لائیں گے اور پنجاب کے 36 اضلاع میں یہ کام شروع ہو چکا ہے.

انہوں نے کہا کہ جو اساتذہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کو بچے سکولوں میں واپس لانا پڑیں گے تو ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ اساتذہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ سکولوں کی کونسل اور سی ای اوز کی یہ ذمہ داری ہے.

واضح رہے کہ آج سے ملک بھر میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک اور یونیورسٹیوں میں بھی تعلیمی سرگرمیاں بحال ہو گئی ہیں اور حکومت نے تعلیمی اداروں میں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد لازمی قرار دیا ہے.

محکمہ سکول ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کے مطابق طلبا کو متبادل دنوں میں بلایا جائے گا سکولوں اور کالجز میں اسمارٹ نصاب کے مطابق تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ کچھ جامعات میں آن لائن اور بعض میں طلبا کے امتحانات آن کیمپس ہوں گے. خیال رہے کہ کورونا وائرس کے باعث گزشتہ برس 15 مارچ سے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے جبکہ سندھ میں 26 فروری کو پہلا کیس سامنے آنے کے بعد سے ہی تعلیمی ادارے بند تھے 6 ماہ کی طویل بندش کے بعد تعلیمی اداروں کو 15 ستمبر کو دوبارہ کھولا گیا تاہم وبا کی دوسری لہر کے باعث انہیں 26 نومبر کو دوبارہ بند کر دیا گیا تھا.

ادھر ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیرصرف سرکاری محکموں کی رپورٹوں کی بنیاد پر بیان دے رہے ہیں سرکاری سکولوں میں انتہائی غریب خاندانوں کے بچے زیرتعلیم تھے جن کے پاس ”آن لائن“تعلیم کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ان بچوں کی بڑی تعداد آج دوکانوں‘ورکشاپوں اور ہوٹلوں پر کام کررہی ہے جبکہ بچیوں کوگھروں میں کام کے لیے لاہور ‘کراچی‘اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں رشتہ داروں کے پاس بجھوادیا جاتا ہے.

انہوں نے کہا کہ عین ممکن ہے وزیرموصوف کے اپنے گھر ‘خاندان کے افراد یا جاننے والوں کے ہاں بھی ایسی کم عمر بچیاں کام کررہی ہوں ماہرین کے نزدیک حکومت کے پیش کردہ اعدادوشمار پر بھی یقین کرنا ممکن نہیں کیونکہ حکومتیں ہمیشہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ایسے اعدادوشمار کم گھٹا کر دکھاتی ہیں. انہوں نے کہا کہ جب شہبازشریف کی وزارت اعلی میں یوکے ایڈ کے تحت بنیادی تعلیم کا پروگرام شروع کیا گیا تھا تو اس میں زیادہ سے زیادہ تعداد دکھانے کے لیے جعلی انرولمنٹس کی گئی تھیں اس وقت پورے صوبے میں سکول جانے کے عمر کے بچوں کی مجوعی تعداد اتنی نہیں تھی جتنی پنجاب حکومت نے دستاویزات میں دکھادی تھی جس کی بنیادی وجہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو نجی کمپنیوں کی ٹارگٹ دیئے گئے تھے کہ وہ لازم اتنے بچوں کی انرولمنٹ یقینی بنائیں گے بچے سکول آئیں گے یا نہیں اس پر کوئی بات نہیں کی گئی تھی سارا ضرور داخلوں کی تعداد پر تھا کیونکہ ڈونر ایجنسی ”یوکے ایڈ“کے اسی سے مطمئن کرنا مقصود تھا.

ماہرین نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی اسی راستے پر چل رہی ہے اگر آپ اساتذہ کو مجبور کریں گے تو ایک بار پھر وہی ”یوکے ایڈ“انرولمنٹ پروگرام میں جو کچھ ہوا تھا اسے دہرایا جائے گا اسی دوران حکومت نے بی اے اور ایم اے کے پرائیویٹ پروگرام ختم کرکے مستقبل میں بھی ان بچوں پر اعلی تعلیم کے دروازے بند کردیئے ہیں انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی اور وفاقی وزارت تعلیم ملک میں تعلیمی نظام کو تباہ کررہے ہیں .

قبل ازیں برطانوی فلاحی تنظیم ”سیو دا چلڈرن“ کورونا وائرس کی وبا اور تعلیمی اداروں کی بندش پر خبردار کرچکی ہے کہ جنوبی ایشیاءمیں2کروڑ سے زیادہ بچے دوبارہ کبھی سکول نہیں جا سکیں گے ان میں ہائی سکول ‘کالجوں یا یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طالب علم شامل نہیں ہیں تنظیم نے یونیسکو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ اپریل2020 میں کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کے نتیجے میں دنیا بھر میں ایک ارب 60 کروڑ طلبہ پر سکول اور یونیورسٹی کے دروازے بند ہو گئے تھے یہ تعداد پوری دنیا طلبہ کی مجموعی تعداد کا 90 فیصد ہے سیو دا چلڈرن نے ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عالمی سطح پر طلبہ کی ایک پوری نسل کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے.

رپورٹ کے مطابق بحران سے معیشت متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے مزید 9کروڑ سے 11 کروڑ 70 لاکھ بچے غربت کا شکار ہو جائیں گے جس کا دوسرا اثر سکول میں داخلوں پر پڑے گا بہت سے نوجوانوں کو خاندان کی مدد کے لیے کام کرنا پڑے گا یا لڑکیوں کی جلد شادی کر دی جائے گی اس طرح صرف جنوبی ایشیاءمیں2کروڑ سے زائد بچے مستقل طور پر تعلیم سے محروم ہوجائیں گے. فلاحی تنظیم نے اس بارے میں بھی خبردار کیا ہے کہ 2021 کے کے آخر تک کورونا بحران کی وجہ سے کم اور درمیانی آمدن والے ملکوں کے تعلیمی بجٹ میں 77 ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے سیو دا چلڈرن کی سربراہ انگر ایشنگ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کروڑوں بچے دوبارہ کبھی سکول نہ جا سکیں یہ تعلیمی شعبے میں ایک ایسی ہنگامی حالت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی حکومتوں کو تعلیم کے شعبے میں فوری سرمایہ کاری کرنی ہو گی لیکن اس کی بجائے ہم بجٹ میں ایسی کٹوتیوں کے خطرے سے دوچار ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ہے.

انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ امیر اور غریب اور لڑکوں لڑکیوں کے درمیان پہلے سے موجود عدم مساوات میں دھماکہ خیز اضافے کی صورت میں نکلے گا فلاحی تنظیم نے حکومتوں اور عطیات دینے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ تعلیم کے شعبے میں ایک نئے عالمگیر منصوبے میں مزید فنڈ لگائیں تاکہ جب محفوظ ہو تو بچوں کو سکول میں واپس لایا جاسکے اور اس وقت تک فاصلاتی تعلیم میں مدد ملے سکے.

سیو دی چلڈرن نے ایسے 12 ملکوں کا ذکر کیا ہے جہاں کے طلبہ پیچھے رہ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں ان ملکوں میں نائیجر، مالی، چاڈ، لائیبیریا، افغانستان، گنی، موریطانیہ، یمن، نائیجیریا، پاکستان، سینیگال اور آئیوری کوسٹ شامل ہیں سیو دا چلڈرن کے مطابق کورونا بحران سے پہلے 25 کروڑ 80 لاکھ بچے اور بالغ سکول نہیں جاتے تھے. 

Comments