BA Urdu 404 solved Assignment AUTUMN 2021

 



علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی  اسلام آباد

درجہ : بی اے / بی ایس / ایسوسی ایٹ ڈگری

کورس : اردو                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  کوڈ : 0404

سمسٹر: خزاں  2021ء

امتحانی مشق نمبر1

سوال نمبر1:خطبہ حجتہ الوادع انسانیت کے لیےزندگی کا پوراپوراالائحہ عمل ہے۔ متن کی روشنی میں و ضا حت کر یں۔

جواب: 4۔ خطبہ حجتہ الوادع

                                        حجتہ الوادع کا مطلب آخری حج ہے اس سے مراد وہ حج ہے جو حضورﷺ نے 10 ہجری میں ادا فرمایا اس کے کم و پیش دو ما ہ بعد آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے اس لیے یہ آپ کا آخر ی حج تھا۔ اس لیے اس حج کو حجتہ الوادع کہا گیا ۔ آپ نے اس آخری حج کے موقع پر صحابہ کرام کے عظیم الشان اجتماع میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبے میں بھی آپ ﷺ نے الودا عیہ کلمات کہے اور فرمایا" اے لو گو ! میری بات سن لو کیونکہ اسکے بعد اس جگہ آئندہ میری تم لوگوں سے مالاقات نہ ہو سکے گی۔"

                          حضورﷺکا یہی وہ تاریخی خطبہ جس میں اسلامی تعلیمات کا نچوڑملتا ہے۔اس خطبے کومسلما نوں کی  معاشرتی ، معا شی اور سیاسی زندگی کا منشور کہا جاسکتا ہے۔

خطبہ حجتہ الوادع کے نمایاں نکات

    اس خطبے کے نما یاں نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1.         حضور ﷺ نے خطبے کا آغاز ایھاالناس ۔ اے لو گو سے کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے  کہ آپ ﷺ نے سارے انسانوں کو مخاطب فرمایا۔

2.             آپ ﷺ نے پھر انسانوں کی برابری پر زور دیا ۔ اور فر مایا کہ تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم ؑ مٹی سے پیدا کیے گئے اس لے رنگ و نسل کی کوئی اہمیت نہیں گورے کو کالے پر عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کا معیار رنگ و نسل نہیں بلکہ پر ہیز گا ری ہے۔

3.       اس خطبے میں آپ ﷺ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ یہ آپ کا آخری حج ہے۔

4.       رنگ و نسل اور  قبائل کی تقسیم صرف پہچان کے لیے ہے۔ اس کا اور کوئی مقصد نہیں ۔

5.       آپﷺ نے جا ہلیت کے زمانے کی تما م رسموں کو با طل قرار دیا۔ اور سب سے پہلے ان پر خود عمل کیا اپنے ایک مقتول عزیز ربیعہ بن الحارث کا خون معاف کیا اور اپنے چچا حضرت عباس کا جو سود لوگوں کے ذمے تھا آپ نے وہ بھی معاف فرمادیا ۔ آپ کے اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل اور سود بدترین برائیاں ہیں۔

6.       آپ نے مسلمانوں کو دین کی بنیاد پر ایک رشتے میں پرویا اور وہ بھائی بھائی بن گئے ۔

7.       جو امیر (حکمران) کتاب اللہ کے مطابق قیادت کرے اس کی اطاعت فر ض قرار دی گئی۔

8.      ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت و آبرواور جان و مال کو حرام قرار دیا۔

9.       مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں اور عورتوں کے مردوں پر۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے ۔ آپﷺ نے عورتوں کا خیال رکھنے کی تا کیدفرمائی۔

10.   آپﷺ نے فرمایا کہ وارثوں کو ان کے حقوق دیے جا ئیں ایسی وصیت اور خرچ سے منع فرمایا جس سے وارثوں کو نقصان پہنچتا ہو۔

11. ہر شحض اپنے جرم کا ذمہ دار خود ہے۔ وہ اس کی سزا دنیا و آخرت میں خود بھگتے گا۔

12.   آپﷺ نے غلامو ں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تا کیدفرمائی ۔ اس سے پہلے غلاموں کو کسی سوسائٹی یا مذہیب نے یہ حقوق نہیں دیے تھے۔

13.  اسلام آخری مذہب ،قرآن آخری کتاب اور مسلمان آخری امت ہیں۔

سوال نمبر2: نصاب میں دیے گئے ایک خط کے متن کی روشنی میں اردو مکتوب نگاری میں غالب کا مقام و مرتبہ متعین کریں۔

جواب:  غالب کی مکتوب نگاری

         ایک مکتوب نگارکی حیثیت سے غالب ؔکو اردو کے تمام گزشتہ اور موجود ہ مکتوب نگاروں پر فوقیت حاصل ہے ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ وہ اردو کے بہترین مکتوب نگار ہیں۔ یہ غالب ہی تھے جنہوں نے اردو میں خط لکھنے کے پرانے طریقوں کو ترک کر کے نئے طریقوں کی بنیاد رکھی اور خطوں کو ایک خاص قسم کا دلچسپ اور زندہ ادب بنا دیا۔

         غالب سے پہلے خطوظ نہایت روایتی انداز میں لکھے جا تے تھے۔ عربی الفاظ میں لمبے چوڑے القاب سے خط شروع کیا جا تا ، پھر اپنی خیریت لک کر مکتوب الیہ کی خیریت نیک مطلوب ہو تی ۔ اس کے بعد اصل مطلب لکھا جا تا۔ آخری میں گھر بھر کی طرف سے اسلام اور دعا لکھی جا تی۔

(1)غالب کا منفرد انداز

       غالب جو روشِ عام پر چلنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ جنہیں وبائے عام میں مرتا بھی گوارانہ تھا، انہوں نے خط لکھنے کے مروجہ طریقوں کو خدا حافظ کہہ دیا ۔ انہوں نے القلاب کو یا تو بہت مختصر کر دیا۔ یا بالکل اڑا دیا اور پہلے ہی جملےسے اصل مطلب پر آ گئے ۔ غرضیکہ غالب کے خطوں میں پر انے تکلفات کم سے کم ملیں گے۔

(2)مکالمے کا انداز

غالبؔ کے خطوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ ان کے خطوط میں با ت چیت کا سا انداز ہے ۔ اپنے خطوں کی اس خوبی کا احساس خود غالب ؔکو بھی تھا ۔ چنانچہ انھوں نے اپنے ایک خط میں لکھا۔"میں نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ اب ہزار کو س سے گفتگو کیا کرو اور ہجر میں وسال کے مزے کیا کرو۔"

غالب کے بعض خطوط بالکل ڈرامائی مکالمے کی شکل میں ملتے ہیں اور غالب ؔ نے ڈرامائی مکالمے اس وقت لکھے جب اردو مین ڈرامے کا نام و نشان بھی نہ تھا۔

(3)سادگی اور سلاست

غالب نے اپنے خطوں میں جس طرح کی نثر استعمال کی وہ تا ریخی اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی ادبی اعتبار سے غالب کے زمانے تک اردو نثر میں تکلف ارو تصنع بہت تھا ۔ لوگ سیدھی  سادی زبان میں لکھنا اور بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔ غالب نے اپنے زمانے کے  برعکس سادگی اور سلاست اختیار کی۔چھوٹے چھوٹے جملے لکھے اور ایسے خوبصورت جملے لکھے ۔ جوان کے شعروں کی طرح آسانی سے یا درہ جاتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ غالب ؔ اردو کے چند بہترین نثر نگاروں میں سے ہیں ۔ ان کی سادہ نگاری نے اردو نثر کی ترقی کا راستہ ہموار کر دیا ۔ زبان کی سادگی کے ساتھ جتنا اعلیٰ درجے کا اسلو ب غالب کے یہاں ملتا ہے وہ اردو کے کسی اور ادیب کے یہاں نہیں ملتا۔

 خطوط غالب کی اہمیت

  غالب ؔ کے خطوط تین اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ اول تو اردو میں بہترین خطوط ہونے کے اعتبا ر سے ۔ دوسرے سوانحی نقطہ نظر سے یعنی غالب کے خطوط میں ان کی سو انح عمری پو شیدہ ہے ۔ مولاناغلام رسول مہر نے غالبؔ کے خطوط کو سوا نحی اعتبار سے ترتیب دے کر ان کی سوانح عمری مرتب کر دی ہے۔ غالب کے خطوط کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ ان میں تا ریخی مواد کثرت سے ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے بہت سے خطوط میں اپنے زمانے کے حالات لکھے ہیں جو مؤرخین کے لیے قیمتی مواد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

سوال نمبر3: آواز دوست کے دونوں مضامین "مینار پاکستان" اور قحط الرجال پر تبصرہ کریں۔

جواب: آواز دوست کا خلاصہ

"آواز دوست" مختار مسعود کی تصنیف ہے۔ ملیّ درد سے معمور یہ کتاب ، اپنے جاندار موضوع اور دلکش اسلوب کی بدولت بہت مقبول ہوئی۔

مختار مسعو د کی پر ورش اور تعلیم علی گڑھ میں ہو ئی ۔ان کا تعلق علی گڑھ کے طلبہ کی اس نسل سے تھا جنھوں نے پاکستا ن کے تصو ر کو حقیقت بنتے د یکھا اور ایک جا نثار فوج کی طر ح قاعداعظم کا ساتھ دیا ۔"آواز دوست"دراصل ہماری کا مر ا نیوں کا رذمیہ  اور کو تا ہیوں کا مر ثیہ ہے۔

                                "آواز دوست" دو مضا مین "مینار پاکستان"اور قحط الرجال کا مجموعہ ہے۔

مینار  پاکستان

                اس مضمون میں مصنف نے تحریک پا کستان کے پسِ منظر کو بڑے فنکا ر انہ انداز میں پیش کیا ہے۔حسنِ اتفاق سے مینار پاکستان کی تعمیرکے دوران مختار مسعود لا ہور کے کمشز تھے اور انھیں اس کہا جا تا تھا۔لیکن یا د گا ر کے لفظ میں چو نکہ مو ت اور فنا کا تصو ر تھا ۔اس لیے مختا ر مسعو د کی تجو یز پر اسے مینار پاکستان کا  نا م دیا گیا ۔ اس مضمون میں مینا ر کی رعا یت سے اہرا م مصر سے لے کر ایفل ٹاور تک دنیا کے بہت سے مینا روں ،مکا ذکر آیا ہے اور ان کے طرظ تعمیر اور مقاصد تعمیر پر رو شنی ڈالی گئی ہے۔ان میناروں کے حولے سے ملت اسلامیہ کی تاریخ کے بعض اہم پہلوں بھی پیش کیے ھئیت ہیں۔اس سے مصنف کے وسعتِ مطا لعہ کے ساتھ احساس ِدرد مندی کا انداز ہوتا ہے۔مثلاَََ یہ اقتباس ملا حظہ کر یں۔

" جب مسجدیں بےرونق اور مدرسے بے چرا غ ہو جا ئیں ۔جہاں کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکا یت کو مل جائے ۔ملک کے بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو مو ت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے ۔تو صدیاں یوں ہی گم ہو جا تی ہیں۔"

مینار وں کے بعد تحریک پا کستان کا ذکر آتا ہے۔مختار مسعود کے نزدیک مینار پاکستان کی بنیادیں اسی روز بھری گئی تھیں۔ جس دن علی گڑھ کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ قائد اعظم نے اپنا یہ  تا ریخی جملہ علی گڑھ ہی میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ " پاکستا ن اسی دن وجود میں آگیا تھا۔ جب ہندو ستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا"مختار مسعود نے بڑے مؤ ثر انداز میں پاکستان کی حمایت و مخالفت کے قصے بیان کیے ہیں۔

تحریک پاکستان کے جوش و جذبے کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے۔

"مجھے خواجہ ناظم الدین کا ایک خط یاد آگیا جو میں نےطالب علمی کے زمانے میں دیکھا تھا "

خواجہ صاحب نے اپنے لڑکے کو جو علی گڑھ میں پڑھ رہا تھا خط میں لکھا کہ تم کو چاہیے کہ تحریک پاکستا ن کے کام میں کو ئی غفلت نہ ہو تم تو اگلے سال بھی امتحان میں بیٹھ سکتے ہو ۔ مگر قوم کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آیا کرتا۔"

(2)قحط الرجال

یہ آواز ِدوست کا دوسرامضمون ہے ۔ مضمون خاصا طویل اور کتاب کت تقریباََدو سو صفحات پر پھیلا ہو ا ہے ۔ یہ 72-1971 میں مکمل ہوا ۔ ہما ری قومی تا ریخ کا سب سے بڑا المیہ یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا  تعلق اسی دور سے ہے ۔آمازئش کے ایسے وقت میں اچھے لو گو ں کی کمی خا ص طو ر پر محسو س ہو تی ہے۔ مختا ر مسعود نے بعض عظیم ہستیوں کے ذکر سے ایک محفل عبرت برپاکر کے ہمیں قحط الرجال کا احساس دلایا ہے۔ قحط الرجال کی تشر یھ خود انھوں نے اس طرح کی ہے۔

……….."قحط میں موت ارزاں ہو تی ہے اور قحط الرجال میں زندگی ۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جا تا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار،مردم شناسی ہو تو نا یا ب"

یہ طویل مضمون ان عظیم شخصیتوں تذکر ے پر مشتمل ہے جن کے دستخط مختار مسعود نے بڑے اشتیاق سے اپنے آٹو گراف میں لیے ۔ شخصیات کے انتخاب میں مختار مسعود نے ایک خاص معیار کا ہمیشہ خیا ل رکھا ۔ اس لیے ان کے آٹو گراف البم اور قحط الرجال میں محمد ابراہیم شاکیو چن کے علاوہ بہاد ر یا ر جنگ ، ای۔ایم فا سٹر ، ملا واحدی ، حسرت موہانی ، مولانا ظفر علی خان ، سید عطا ءاللہ شاہ بخاری، نواب بھوپا ل ، راجہ صاحب محمود آباد ، پر و فیسر ٹائن بی ، سر و جنی نائیڈ و اور قا ئد اعظم جیسے عظیم لو گ ہی جگہ پا سکے ہیں۔

مختار مسعود نے قحط الرجال میں شخصیتوں کے خاکے نہیں لکھے بلکہ ان عظیم شخصیتوں زندگیوں کے بعض روشن پہلو پیش کر کے ان کی عظمت کو اجاگر کیا ہے۔ اسلوب کی جا دو گر ی قحط الرجال میں بھی نما یا ں ہے۔ خوبصورت اور بو لتے ہو ئے جملے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ کچھ مثالیں ذیل میں دیکھیں :

"جس سر حد کو اہل شہادت میسر نہ آئیں وہ مٹ جا تی ہے۔ جس آبادی میں اہل احسان نہ ہو ں ۔اسے خانہ جنگی اور خا نہ بربادی کا سامنا کر نا پڑنا ہے جس تمدن کو اہل جمال کی خدمات حاصل نہ ہو ں وہ خوش نما اور دیر پا نہیں ہو تا۔"

ایک اور اقتباس دیکھیے:

"ایسا معلوم ہو تا ہے کہ بڑے آدمی انعام کے طو ر پر دیے اور سزا کے طور پر روک لیے جا تے ہیں ۔ عطا تو اسی کے حق میں ہو تی ہے ۔ جو حقدار ہو ۔ آ خر قدرت ایک سپاس نا آشنا قو م بڑے آدمی کیو ں عطا کرے ۔ اسے اپنے عطیے کی رسوائی اور بے قدرتی نا گوار گزرتی ہے۔

سوال نمبر 4: پیر پنجال کا خلاصہ اپنے الفا ظ میں تحر یر کریں۔

جواب : "کشمیر اداس ہے" کا مو ضوع اکتوبر 1947ء سے جنوری 1948ء کا درمیانی زمانہ ہے ۔ یہ نازک دور ہے جب مختلف  محاذوں پر کشمیر کی جنگ جاری تھی ۔ لیکن اس رپورتاژ میں جنگ کے واقعات بہت  کم بیان ہو ئے ہیں البتہ اس جنگ کے جو اثرات لو گو ں کے زہن پر مر تب ہو رہے تھے ۔ محمود  ہا شمی نے انھیں بڑی فنکا رانہ ہنر مندی سے قلمبند کیا ہے۔

"پیر پنچال کے قیدی" میں امین صا حب کا کمرہ ایک ایسی مر کزی جگہ ہے جہاں کشمیر کی سیا ست سے تعلق رکھنے والا ہر شخص آتا ہے۔ نیشنل کا نفرنس کے امین صا حب جو ہند و ستانی فوجیوں تعریف کر تے نہیں تھکتے اور کسی کو پا کستان یا قا ئد اعظم کا نام نہیں لینے دیتے ۔ ہندوستان کی فو ج بظاہرکشمیریوں کو پا کستانی حملہ آوروں سے نجات دلانے آئی لیکن اس کا کردار قا بض فو ج کا سا ہے۔

یہاں ہوم گارڈز ہیں جن کی اکثریت مسلمان ہے ۔ مگر ان کے کمانڈ ر سب کے سب ہندو ہیں اور گارڈز پاکستان  اور کشمیر کے مذہبی اور اقتصادی رشتوں سے آگاہ ہیں۔اور وہ کبھی کبھی اس کا اظہار کر دیتے ہیں ۔ یہاں اپورب جیسا شخص بھی ہے جسے اپنی ساری روشن خیالی کے با وجود پا کستان جا نے والی سڑک کا نا  م تک سننا گو ارا نہیں۔ کشمیر میں زبانی طو ر پر دو قو می نظریے کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے لیکن عمل اسی پر ہو رہا ہے۔مسلمانوں کو صرف  اس لیے تباہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان ہیں۔

"کشمیر اداس ہے" کی بطور رپورتا ژ ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لکھنے والے نے اپنی ذات کو ابھارنے کی کو شش بالکل نہینں کی۔ محمود ہا شمی  نے اکثر اپنے آپ کو پس پردہ رکھا ہے۔

"کشمیر اداس ہے" کا مو ضوع تا ریخ بھی ہے اور سیاست بھی لیکن اس میں نہ تو تا ریخ مو رخانہ انداز میں بیان کی گئی ہے اور نہ سیاست کا بیان اخباری ہے ۔ سیاست اور تا ریخ دونوں کا بیان بڑ ی فنکاری سے ہوا ہے کرداروں اور واقعات کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ان سے سیاست اور تا ریخ کے رخ کا انداز ہ بخوبی ہو تا ہے۔

"کشمیر اداس ہے" کے طرز بیان میں صر احت کی بجائے رمزوکنایہ کا استعمال زیادہ ہو ا ہے لیکن کنا ئے بڑے وا ضح ہیں ۔ اس اسلوب نے اس رپو ر تا ژ کوایک شاہکار بنا دیا ہے پیر پنچال میں گندے انڈوں کے کنائے سے ہاشمی نے کیسی خوبصورت با ت پیدا کی ہے۔

انہی خصوصیات کی بنا پرا ردو کی نامورادیب اور نقاد ممتاز شیریں نے "کشمیر اداس ہے" کو اردو کا بہتریں رپورتاژقرار دیاہے اور یہ ساری خصوصیا ت "پیر پنچال کے قیدی " میں بھی مو جو د ہیں ۔

سوال نمبر :5   غالب کے درج ذیل غزلیات کی اپنے الفا ظ میں تشریح کریں۔

الف۔ کہوں جو حال کہتے ہیں مدعا کیسے

جواب:

شعر نمبر :1

                                کہوں   جو   حا ل تو کہتے ہو مدعا کہیے

                                                                تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے

 

تشریح

             عاشق اور محبوب کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔عاشق محبوب سےکہتا ہے کہ جب میں تم سے اپنا حال ِدل کہتا ہوں تو تم آخر تمھارا مطلب کیا ہےاپنا اصل مطلب بیان کرو۔اب تم ہی بتاؤکہ تمہارے اس سوال کے جواب میں کیا کہوں۔یعنی تم جا نتے ہو کہ بیان حال سے میرا مطلب کیا ہے ۔لیکن جب تم جان کر انجان بنتے ہو تو پھر میں کیا کہوں؟

          اس شعر میں غالب نے سادگی بیان کا کما ل د کھا یا ہے ۔ عا م طو ر پرغالب اتنی سادہ زبان استعمال نہیں کرتے اور فارسی ترکیبوںکی مدد سے وسیع مضمون کو مختصر الفاظ میں ادا کر لیتے ہیں ۔ لیکن یہاں انھوں نے فارسی ترکیبیں استعمال نہ کرنے کے باوجود خاصے بڑے مضمون کو دو مصرعوں میں ادا کر دیا ہے۔ دوسری خونی اس شعر کی یہ ہے کہ اس میں جو مطلب ہےاسے وہ صاف لفظوں میں نہیں کرنا چاہتا ۔ پھر بھی محبوب اسے سمجھ رہا ہےلیکن جان کر انجان بن رہا ہے یہ اس کی شوخ مزاجی کا ایک پہلو ہے۔

ب۔                       جیسے بزم میں ناز سے گفتار میں آوے

جواب:

  شعر نمبر 1

                                       جس   بزم   میں   تو   نا ز   سے   گفتا ر   میں   آ وے

                   جاں   کا    لبد   صورت    دیوار    میں      آوے 

لغت : لغت گفتار میں آوے :باتیں کرنے لگے ۔        کالبد : قالب یا جسم

تشریح

          محبوب کی تعریف میں دنیا کی ہر زبان کی شاعری میں مبالغے سے کا م لیا گیا ہے۔یہاں غالب بھی اپنے محبوب کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہویے کہتے ہیں کی ماتھ جس محفل میں تو باتیں کرے وہاں مکان کی دیواروں پر تصویر لگی ہوئی ہیں ان کے قالب میں جان پڑجا ئے کیونکہ تیری باتیں نہایت جان بؒش ہو تی ہیں ۔ ان کے اثر سے بے جا ن چیزوں میں بھی جان پڑسکتی ہے۔شاعری میں اس طرح کا مبالغہ برا معلوم نہیں ہوتا مگر عام زندگی میں اس طرح کی با تیں بے تکی معلوم ہوتی ہیں۔

               کشمیر اداس ہے۔" محمود ہاشمی نے مہاراجہ کے خلاف ہونے والی عام بغاوت کو بیان کیا ہے۔پیر پنجال میں ہمیں اس بغاوت کے ردعمل کو ان کرداروں کے اندر دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔نفرت کے درمیان میں بتا دیا گیا کہ ایک قومی نظریہ کا پر چا ر کعنے والوں کے دلوں میں مسلمان کے خلاف نفرت کا لاوا ک ں جموں اور اس کے مسلمانوں کی تباہی کا خصوصی ذکر ہے۔ ان میں سے ہر اپنی جگہ پر مکمل ہے۔

  

Comments