Education 312 solved assignment no.1 AUT 2021



کورس:

علم التعلیم

سطح

انٹر میڈ یٹ

کورس کوڈ

312

سمسٹر

خزاں 2021

اسا ئنمنٹ نمبر

1

سبجیکٹ ٹو ٹل اسائنمنٹ

4




سوال نمبر1: تعلیم کی ضرورت اور اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں بیا ن کریں۔

جواب: تعلیم کی ضرورت و اہمیت

تعلیم کی ضرورت

            ابتدائی دور میں انسان تنہا رہتا تھا۔تنہا رہ کر وہ ماحول کو قابو میں نہ لا سکتا تھا۔ ماحول کی قوتیں بڑی زور آور اور ظالم تھیں۔ اس کی مخا لفت سے بچنے کیلئے تنہا انسان کافی نہ تھا۔فطرت نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ علیحدہ زندگی گزارنے والے انسان اگر یکجا ہو جائیں تو وہ بآ سانی ان مخالف قوتوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس ضرورت  کے تحت بے ترتیب اور غیر منظم انسان ایک دوسرے کے قریب آئے۔معاشرتی پیچید گی نے انسان کو نئے ادارے قائم کرنے پر مجبور کیا۔ اس طرح تعلیم کے باقا عدہ رسمی ادارے قائم ہو گئے اور تعلیم ایک معا شرتی ذمہ داری بن گئی۔

تعلیم کی اہمیت

            تعلیم معاشرتی عمل اور اس لحاظ سے فرد کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ فرد کو اپنی صلاحیتوں کو ابھارنے ، اپنے علم میں اضافہ کرنے، خود  میں فہم اور سمجھ بوجھ  پیدا کرنے، اپنی عادات میں توازن برقرار رکھنے، نئی عادات اور مہارتیں سیکھنے اور اپنے اندر مثبت رویئے پیدا کرنے کیلئے اپنی شخصیت میں تبدیلیاں  لا نا ہوتی ہیں اور خود با صلاحیت اور مستعد بننا ہوتا ہے۔اسے اپنی شخصیت میں استحکام اور تغیر پیدا کرنا ہوتا ہے۔استحکام اور تغیر سے اس کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔تعلیم فرد کی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔تعلیم انسان کی ان تمام ضرورتوں کو پورا کر کے اس کی شخصیت میں مناسب اور مثبت تبدیلیاں پیدا کر دیتی ہے۔معاشرے کی تشکیل میں تعلیم بہت ضروری ہے۔معاشرے میں افراد کی ہم آہنگی، اقدار کی یکسانیت، موزوں عقائد و نظریات، دوسرے افراد کیلئے محبت و خلوص کے جذبات و احساسات، معاشرے کے تمام افراد کی بھلائی کیلئے لگن، تعلقات میں خو شگواری کیلئے بھی لازمی ہے۔

اسلام میں تعلیم

                اسلام کے  مطابق تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت کا مقدس فرض ہے۔ جنگ بدر کا واقعہ تعلیم کی اہمیت کی نشا ندہی کرتا ہے۔ رسول کریمﷺ نے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو قید ی دس مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے گا اسے رہا کر دیا جا ئے گا۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم کی کتنی زیادہ قدرو منزلت ہے۔

 

تعلیم کا اسلامی مفہوم

تعلیم عربی زبان کے لفظ علم سے نکلا ہے۔ تعلیم کے لغو ی معنی ہیں کسی چیز کے بارے میں بار بار اور کثرت سے خبر دینا تا کہ سننے والے کے ذہن میں وہ بات پوری طرح بیٹھ جائے۔یعنی طالب علموں کو ایسی تعلیم دی جائے کہ ان کی جملہ صلا حیتوں کی مناسب نشو و نما ہو سکے۔ اس سے ظاہر ہے کہ تعلیم میں بچے کو جو کچھ سکھایا جائے اس کا اثر اس کے ذہن ،کردار شخصیت اخلاق اور عادات میں نمایاں ہو۔اسلام نے علم کی اہمیت اور اس کی قدرو قیمت پر جس طرح روشنی ڈالی ہے اس کے حصول کیلئے جس قدر تاکید کی ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔

           تعلیم کی اہمیت و عظمت قرآن کی روشنی میں

اسلام میں تعلیم دینا اور علم حاصل کرنا دونوں کو فرائض قراردیا گیا ہے۔حضرت محمدﷺ پر قرآن پاک کی پہلی آیات ان الفا ظ میں نازل ہوئی تھیں۔

اقرا باسم ربک الذی خلق  خلق الانسان من علق   اقرا و ربک الاکرم الذی علم با لقلم  علم الانسان ما لم یعلم 

(پڑھ اپنے  رب کے نام سے) جس نے پیدا کیا  انسان کو لوتھڑے سے، پڑھ اور تیرا رب کریم ہے۔وہ جس نےقلم سے تعلیم دی انسان کوان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہ جانتا تھا۔ (سورہ علق  1 تا 5)

گویا قرآن کریم کا پہلا حکم یہی تھا کہ پڑ ھو اور سیکھو۔

سورہ مجا دلہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یر فع اللہ الذین امنو منکم والذ ین اوتو العلم درجت۔

"اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے درجات بلند کرتا ہے جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا۔"

قرآن مجید میں ایسی بے شمار آیات مقدسہ ہیں جن میں علم اور اہل علم کی فضیلت ،حصول علم کی ترغٰیب، اچھے برے علم کی شناخت اور علم کے متعلق ضروری ہدایات اور واضح نقطہ نظر پیش کئے گئے ہیں۔

        حصول علم اور احادیث نبویﷺ

تحصیل علم کے سلسلے میں چند احادیث نبوی ﷺ ملا حظہ کریں۔

           "جس شخص نے علم کی طلب میں ایک راستہ طے کیا وہ جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلا"۔

           "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے"۔

           "علم حاصل کرہ چاہے اس کیلئے ملک چین ہی جانا پڑے"۔

           ماں کی گود سے لے کر قبر کی لحد تک علم حاصل کرو"۔

           "علم حاصل کرنا اور علم کی باتوں کو ذہن نشین کرنا ایک سو غلا موں کو آزاد کرنے سے بہترہے"۔

           " عالم کے قلم کی سیا ہی شہید وں کے خون سے بہتر ہے"۔

                مندرجہ بالا احادیث ان بے شمار احادیث نبوی ﷺ میں سے چند ایک ہیں۔ جن سے اسلام اور نبی کریم ﷺ کی نظر میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔اسلام میں تعلیم نہ صرف روحانی بالیدگی اور اخلاقی نشو و نما کو فروغ دیتی ہے بلکہ تعلیم ایک مسلسل عمل ہے۔اسلام نے دینی اور دنیاوی علوم کو مساوی اہمیت دی ہے اور ان دونوں کے باہمی ربط و توازن سے اسلامی نظر یہ تعلیم کا فروغ ہوتا ہے۔

        اسلام کا ہمہ گیر تعلیمی تصور

                اسلام مفت اور ہمہ گیر تعلیم کا تصور پیش کرتا ہے۔وہ فرد کی روحانی اور مادی دونوں پہلوؤں کی مساوی نشوونما پر توجہ دیتا ہے۔اسلام میں روحانی قدروں کے ساتھ ساتھ کردار کی  اصلاح پر بھی توجہ دی جاتی ہےاور اس طرح ایک کامل انسان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات  ہے۔ جب کہ تعلیم اس کا لازمی جزوہے۔اسلام کے نظریہ تعلیم کے مطا لعے سے مندرجہ ذیل اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

           خداوند کریم نے انسان کو بے داغ فطرت اور لا محددود صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان صلاحیتوں کو ترقی دینا اس کی اپنی پسند ، ہمت اور استعداد                              پر منحصر ہے۔

           خدا د صلاحیتوں کو ترقی دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ انسان نظام کائنات کی تخلیق اور اس کے انداز پر غورو فکر کرے۔

           تعلیم کے متحرک تصور کیلئے کوئی مقررہ نصاب مثالی اور ابدی نہیں ہو سکتا۔ نصاب میں لچک اور قوت جذب ہونی چاہیے۔

           تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں۔اگر فوقیت ہے تو علم سے ہے۔

 

 

 

سوال 2۔              علم نفسیا ت کی تعریف کریں اور ان کی شاخیں بیان کریں۔

جواب:               علم نفسیا ت کا تعارف

                نفسیا ت ایک قدیم علم ہےجس کا سراغ قدیم یونانی مفکرین کی تحریروں میں جا بجا ملتا ہے لیکن انسانی افکا رو کردار کو مشاہدات و تجربات کی روشنی میں جا نچنے کی منظم اور سائنسی کوشش دور جدید ہی میں شروع ہوئی۔ اس لحاظ سے علم نفسیا ت کو جدید ترین علوم میں شامل کیا جاتا ہے۔یہ بیسویں صدی کی علمی تحریک کا نتیجہ ہے کہ  تعلیم کے بنیادی  اصولوں نے ایک مستقل سائنس کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اب تعلیم کا عمل محض تصوراتی ہی نہیں بلکہ سائنسی ہے۔

علم نفسیا ت کی تعلیم میں اہمیت

                اب علم نفسیا ت کی مدد سے انسانی نشوونما کے مدارج،ذہنی تربیت کے اصول، ذہانت کی نشوونما ، طریق تدریس ،مشاورت ورہنمائی کے اصول بآسا نی سمجھ میں آسکتے ہیں۔جب علم التعلیم اور نفسیات کا آپس میں تعلق اتنا قریبی ہو چکا ہے تو ضروری ہے کہ علم نفسیات کا مفہوم ، وسعت اور اس کے شعبوں کے بارے میں مکمل معلومات ہوں۔

نفسیا ت کی تعریف

                نفسیا ت ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے سے ہم ذہنی اعمال اور رویے کا مطالعہ کرتے ہیں۔ایک ماہر نفسیات ہمیشہ لوگوں کے اعمال اور کردار کا بغور مطالعہ کرتا ہےجو جامع اور سائنسی ہوتاہے۔وہ لوگوں کی خواہشات ومحرکات اور رجحا نات، طریقہ فکرو عمل کا بغور جائزہ لے کران کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اس طرح علم نفسیا ت میں ذہنی زندگی کاجائزہ انسانی کردار عمل کاسائنسی مطالعہ اور تعمیری رہنمائی شامل ہیں۔ مختلف ماہرین نے مختلف ادوار میں نفسیا ت کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔

افلاطون

             یونانی مفکر افلاطون نفسیا ت کو "روح کا علم" قرار دیتا ہے۔

ارسطو

            یونانی مفکر ارسطو کے نزدیک " علم نفسیات ان وظائف کا مطالعہ ہے جو ذہن اور جسم کے ملنے سے پیدا ہوتے ہیں"۔

ولیم جیمز کے مطابق

                ماہر نفسیا ت وتعلیم ولیم جیمز کے مطابق " نفسیات انسان کی ذہنی زندگی کے مطالعہ کا نام ہے"۔

واٹسن کے مطابق

                ماہر نفسیات واٹسن کا کہنا ہے کہ " انسانی کردار  کا مطالعہ خارجہ مشاہدے سے کرنا علم نفسیات کہلاتا ہے"۔

میگٹے ویگل کے مطابق

                ماہر نفسیات میگٹے ویگل نے نفسیات کی تعریف واضح انداز میں کی ہے۔وہ کہتا ہے کہ "علم نفسیات میں ذہن انسانی اور کردار کا مطالعہ کیا جاتا ہے"۔

ہماری تعریف

                ان سب تعر یفوں کی روشنی میں ہم سادہ انداز میں علم تعر یف یوں کر سکتےہیں کہ:

                " یہ ایک ایسا تحقیقی علم ہے جو ضابطہ طور پر کسی جاندار کے روئیے  اور ذہنی اعمال و کردار کا مطالعہ کرتا ہے"۔

علم نفسیا ت کی شاخیں

                علم نفسیات کے مطا لعے کا دائرہ انسان تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر  جانداروں کے کردار کا مطالعہ بھی اس کی دلچسپی کا مرکز ہے۔صحت مند ذہنی اعمال اور کردار کےساتھ ساتھ غیر صحت مند اعمال و کردار بھی اس کے احاطہ تحقیق میں آتے ہیں۔نیز انفرادی اور اجتماعی ہر دو قسم کا کردار زیر مطالعہ آتا ہے۔ اس لئے علم نفسیات کو مندرجہ ذیل دو شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

(الف)  نفسیات محض

                اس سے مراد نفسیات کی وہ تمام اطلاعات و تحقیقات ہیں جن  کے ذریعے کردار کی انجام دہی کے  اصول وضع کیے جاتے ہیں۔

(ب)     اطلاقی نفسیا ت

                اس سے مراد نفسیات کی وہ شاخ ہے جو نفسیات کی اطلاعات کو زندگی کے مسائل حل کرنے کیلئے عملاََ استعمال کرتی ہے۔ ان دونوں شاخوں کی مزید تقسیم یوں کی جاسکتی ہے۔

        عمومی نفسیا  ت

            عمومی نفسیات میں فرد کے کردار اور ذہنی کیفیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور اس طرح یہ مطالعے کے بنیادی اصول و قواعد وضع کرتی ہے۔

        غیر معمولی نفسیا ت

                یہ فرد کے اس کردار کا مطالعہ کرتی ہے جو عام معیار اور معمول کے خلاف ہو۔غیر معمولی کردار کے معاملے میں ہر قسم کے ذہنی اور کرداری انتشار اور بیماریاں زیر بحث آتی ہیں۔

        تجر باتی نفسیا ت۔

                انسانی کردار اور ذہنی اعمال سے متعلق مفروضوں کو تجربات کی کسوٹی پر پرکھنے کا کام تجر باتی نفسیات کرتی ہے۔

        سماجی نفسیات

            نفسیات کی یہ شاخ معاشرتی زندگی میں نت نئے پیدا ہونے والے مسائل اور رجحانات کا مطالعہ کرتی ہے۔

        صنعتی نفسیا  ت

            صنعتی نفسیا ت میں نفسیاتی معلومات کو صنعتی معاملات میں استعما ل کیا جاتا ہے۔ یعنی صنعتی میدان میں پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات کے اسباب اور ان کےحل کے بارے میں رہنمائی کرنا صنعتی نفسیات کا کام ہے۔

        بچوں کی نفسیا ت

            یہ شاخ عمومی نفسیا ت کے اصولوں اور فراہم کردہ بنیادوں پر بچوں کے کردار اور ذہنی اعمال کا تجزیہ کرتی ہے۔

        نموئی نفسیا ت

             نموئی نفسیات سے مراد نفسیات کی وہ شاخ ہے جو مختلف ارتقائی مدارج پر فرد کی نفسیاتی نشوونما کا مطالعہ کرتی ہے۔نفسیاتی نشو ونما سے مراد صرف آموزش، ادراک،حافظہ اور دیگر ذہنی اعمال ہی کی نشو ونما نہیں  بلکہ حیاتی اور سماجی کردار کی نشو ونما ہے۔

        عضو یاتی نفسیات

            عضو یاتی نفسیا ت میں فرد کے کردار کو سمجھنے کیلئے اعضاءکی فعلیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔بالفاظ دیگر عضو یہ کی فعلیت کو سمجھنے کیلئے آلات حس، عصبا نیہ، دماغ اور حرام مغز کی فعلیت کا بھی مطالعہ لازمی ہے۔

        تقابلی نفسیا ت

            یہ نفسیا ت  کی وہ شاخ ہے جو مختلف انواع حیوانی مدارج کے کردار وذہن کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرتی ہے۔

10۔     طبی نفسیا ت

             طبی نفسیا ت سے مراد نفسیا ت کی وہ شاخ ہے جو نفسیاتی اطلاعات کو طبی مسائل کیلئے استعمال کرتی ہے۔

11۔     نفسیا ت جرم قانون

            جرائم کے اسباب اور روک تھام، مجر موں کی اصلاح کے مؤ ثرطریقے اور مناسب قوانین کی تشکیل سے متعلق تحقیق و جستجو کرنا، نفسیا ت جرم و قانون کے دائرہ عمل میں آتا ہے۔

12۔     تعلیمی نفسیا ت

            نفسیا ت کی یہ شاخ نفسیا تی معلومات کا اطلاق تعلیمی مسائل پر کرتی ہے۔

تعلیمی نفسیا ت کا مفہوم

تعلیمی نفسیا ت سے مراد نفسیا ت کی وہ شاخ ہے جو نفسیا تی معلومات کا اطلاق تعلیمی مسائل پر کرتی ہے۔ فی زمانہ یہ شاخ روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ تقر یباََ تمام ترقی یافتہ اور متمدن ممالک اپنے تعلیمی اداروں کو نفسیا تی اصولوں کی روشنی میں چلا رہے ہیں۔ چنا نچہ تعلیمی نفسیا ت معیار نصاب اور طرز تدریس کو طلبہ کی عام ذہنی سطح پر لانے کی کوشش کے ساتھ طلبہ کی ذہنی سطح کو عام معیار تک پہنچانے کیلئے بھی کوشش کرتی ہے۔اس رجحان کا نتیجہ یہ ہے کہ آج متعدد تدریسی طریقے اور متعدد پیمائشی آلات دریافت ہو چکے ہیں جن کے استعمال کیلئے تمام ابتدائی تعلیمی مراکز میں چائلڈ گا ئیڈ نس  کلینک کا قیام آج کل ضروری تصور کیا جاتا ہے۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ماہرین نفسیا ت کا تقرر کیا جاتا ہے۔

تعلیمی نفسیا ت کی وسعت

        یہ علم تحقیق و تجربے اور مطالعے پر منحصر ہوتے ہوئے ان مخصوص اصولوں اور طریقوں کا حاصل ہے جو تعلیمی ماحول کیلئے بہت مفید اور قابل اعتماد ہیں۔

        تعلیمی مقاصد کی تکمیل میں تعلیمی نفسا ت کو اہم مقام حاصل ہے۔

        نفسیا ت معلم کے طرز فکر کو تبدیل کرتی ہے جس سے معلم خراب اور کمزور بچوں سے نفرت کرنے  کے بجائے ان کو سمجھ کر ان کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔

        تعلیمی نفسیا ت کا مطالعہ معلم کے طر یقہ تدریس میں خوبیاں پیدا کرنے کے علاوہ معلم کو اپنے ماحول سے یگا نگت پیدا کرنے میں بھی معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔

        موجودہ نفسیا تی آزما ئشیں تعلیمی اصلاحات کیلئے بہترین مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ ان سے طریقہ ہائے تدریس کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

        اس علم کے مطالعے سے شخصیت کا اچھی طرح جائزہ لے کر اس کے مطابق سبقی مواد ترتیب دیا جاتا ہے جو زیادہ موزوں ہوتا ہے اور جلد ہی ذہن نشین بھی ہو جا تا ہے۔

        اس علم کے مطالعے سے مختلف تعلیمی امور سے واقفیت اور بصیرت پیدا ہوتی ہے۔علم نفسیا ت کا تعلق ذہنی صلاحیت سے ہے۔

تعلیمی نفسیا ت اور فلسفہ تعلیم

            فلسفہ تعلیم میں تعلیمی فلسفہ زندگی اور تعلیم سے متعلق نظریاتی بحث کی جاتی ہے۔مختلف مفکر ین نے مختلف ادوار میں اپنے اپنے نقطہ نظر سے تعلیم کے اغراض و مقاصد پر رائے زنی کی ہے جس سے مختلف قسم کے نظریات وجود میں آتے ہیں۔عمومی طور پر فلسفہ تعلیم " کیا اور کیوں؟" کا جواب دیتا ہے۔ مثلاََ

           تعلیم کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

           علم کیا ہے اور ہم علم کیوں حاصل کرتے ہیں؟جبکہ تعلیمی نفسیا ت"کیسے اور کب؟" جیسے سوالات کا جواب دیتی ہے۔ مثلاََ

           بچے کو کب پڑھنا چاہیے۔

           مدرسہ اپنے فرائض بہتر طور  پر کیسے  سر انجام دے سکتا ہے؟

           معذور بچوں کو کس  طرح تعلیم دی جا سکتی ہے؟

تعلیمی نفسیا ت نہ صرف معلم کو اپنی شخصیت کو سنوارنے میں مدد دیتی ہے بلکہ اس کو پیشہ معلّی سے متعلق بہتر اصول بھی سکھاتی ہے۔

تعلیمی نفسیا ت  کے خصوصی شعبے

تعلیمی نفسیا ت ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سائنس ہے جو اپنے مجموعی مواد اور خصوصی مطالعاتی شعبوں میں تحقیق کے ذریعے سے دن بدن اضافہ کر رہی ہے۔تعلیمی نفسیا ت کی تحقیقات کے  بعض خصوصی شعبے مندرجہ ذیل ہیں:

           مختلف مضا مین پڑ ھا نے کے طریقے۔

           سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں طلبہ اور اساتذہ کو پیش آنے والی خاص مشکلات۔

           خصوصی توجہ کے مستحق بچوں کی تعلیمی ضروریات اور ان سے عہدہ بر آہونے کے خوصی طریقے۔

           طلبہ کی درجہ بندی کا طالبعلم کی شخصیت اور عمل پر اثر۔

           عمل تدریس کو تصاویر ، ریڈیو، ٹیلیو یژ ن اور دوسری بصری معاو نات کے ذریعے سے بہتر بنانا۔

           استاد اور طلبہ کا باہمی تعلق۔

           گروہی رویئے کا مطالعہ اور رہنمائی کے طریقے۔

           ذاتی مطابقت کے مسائل میں را ہنمائی۔

           ذہنی رجحان کا مطالعہ اور پیشہ ورا نہ رہنمائی۔

تعلیمی نفسیا ت مندرجہ بالا شعبوں کے علا وہ اور بھی اس طرح کے کئی مسائل پر حقیقت افروز روشنی ڈالتی ہے۔

تعلیمی نفسیا ت اور معلم

تعلیم کا اصل مقصد صرف کسی درسی کتاب کا پڑھا دینا ہی نہیں بلکہ شخصیت کی مکمل نشو ونما ہے۔یعنی اصل تعلیم وہ ہے جس سے بچوں کی جسمانی ، ذہنی

اور معاشرتی نشو ونماکی جا سکے۔استاد کا فرض اولین یہ ہے کہ وہ بچوں کو اس طرح تعلیم دے کہ وہ معاشرے کے بہترین رکن بن سکیں۔صرف وہ استاد

کامیاب ہو سکتا ہے جو بچے کی جملہ کیفیا ت سے باخبر ہو۔ اس کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں سے واقف ہو اورایسی استعداد رکھتا ہو کہ ان کی صلاحیتوں اور

 رجحان کو سیدھے راستے پر لگا سکے۔

علم نفسیا ت کا مطالعہ معلم میں ایسی قابلیت پیدا کرتا ہے کہ وہ خود  کو سمجھ سکے اور اس طرح بچوں کو بھی پہچانے " تدوین نساب" نصاب میں بچوں کی نشوونما کے اصولوں کی روشنی میں مواد سبقی کا انتخاب کرنے،نظم و نسق مدرسہ  کو نفسیا ت کے انہیں اصولو ں کے سہارے بہتر اور مؤثر بنائے  اور بچوں کی ذہنی استعداد اور دلچسپیوں  کے لحا ظ سے ان کی منا سب رہنمائی کرے۔ اس لحاظ سے ایک اچھا معلم وہ کہلا سکتا ہے جو تعلیمی نفسیا ت سے بخو بی واقف ہو۔

 

سوال3۔ایک معلم کے لیے تعلیمی نفسیا ت کا جاننا کیو ں ضروری ہے ؟ وضاحت کریں۔

جواب:           تعلیم کا نفسیا تی پہلو

            تربیت کے عمل میں بچوں میں موزوں رویے پیدا کرتے ہوئے ان کی ضروریات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں علم نفسیات سے مدد ملتی ہے۔

بنیادی اور ثانوی ضروریات

            بچوں کی ضروریات  دو قسم کی ہیں یعنی بنیادی ضروریات اور ثانوی ضروریات۔

 بنیادی ضروریات

              بنیادی ضروریات خوراک ، لباس ، تحفظ، صحت و صفائی، آزادی اور معاشرے میں باعزت مقام کا حصول ہیں۔ ہر فرد ان ضرورتوں کی تکمیل چاہتا ہے اور ان کا حصول اسے اطمینان بخشتا ہے۔

ثانوی ضروریا ت

                معاشرتی نظام ایک خاص طریق کار کا نام ہے۔ اس میں افراد منعظم ہوتے ہیں اور انہیں اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کیلئے مختلف قسم کی اشیاء طریقہ ہائے کار رویوں اور معاشرتی اداروں کی ضرورت پیش آتی ہے۔وہ چیزیں یا سر گرمیاں جو  بنیادی ضروریات کی تکمیل میں معاون ہوتی ہیں ، ثانوی ضروریات کہلاتی ہیں۔ علم نفسیات ان بنیادی ضروریات کے تعین میں اور متعلقہ ثانوی ضروریات کو معلوم کرنے میں مدد کرتا ہے۔مقاصد تعلیم اور مقاصد مضامین کے تعین میں فرد کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔۔ ترتیب مواد میں ،تعلیمی جائزہ کے عمل میں ، طریقہ ہائے تدریس کے استعمال  میں،تدریس کے عمل  کو زیادہ مؤثر بنانے میں ، بچوں کو سمجھنے میں ، ان کی دلچسپیوں کے مطابق  انہیں تعلیم دینے میں غرضیکہ ہر تعلیمی مرحلے میں تعلیمی نفسیات کے اصو ل ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔

تشکیل مقاصد تعلیم

تشکیل مقاصد تعلیم میں یہ امر پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ یہ مقاصد تعلیم بچے کی کون سی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔ اگر مقصد بچے کی تحر یر کو بہتر بنا نا ہے تو بچے کو اس سے معاشرے میں اچھا مقام ملے گا۔ اگر تعلیم اس میں اچھی تقریر کا انداز پیدا کرنا ہے تو وہ اظہار خیا لات سے اپنے ساتھیوں میں ممتازہو سکتا ہے۔اگر مقصد تعلیم قوت استد لال کو اجاگر کرنا ہے تو وہ بات کرنے کا سلیقہ سیکھ لے گا اور معاشرے میں اچھا مقام حاصل کر لے گا۔یہ اس کی دنیادی ضرورت ہے۔

نصاب سازی     کا عمل

نصاب سازی کے عمل میں ہر مرحلے پر بچے کی ضروریات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔نفس مضمون کے انتخاب میں بچے کی بنیادی اور ثانوی ہر دو  ضروریات  کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کیا اس مضمون کے پڑھنے سے بچے کی فوری ضروریات پوری ہوں گی یا مستقبل قریب کی یا مستقبل بعید  کی۔یہ بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کیا یہ نفس مضمون  بچے کی عمر اور تجر بات کے مطابق ہے۔ مواد کی تریب میں آسان سے مشکل ، سادہ سے  پیچیدہ ، مادی سے غیر  مادی ، مرئی سے غیر مرئی اور معلوم سے غیر معلوم تک کے نفسیاتی  اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا۔

طریقہ ہائے تدریس میں نفسیات کا کردار

                طریقہ ہائے تدریس میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ استاد بہت سے طریقوں کو جانتا ہو اور بچے کی ضروریات کے پیش نظر ، ان طریقہ ہائے تدریس میں سے جس وقت جو طریقہ موزوں ترین سمجھے اسے بروئے کار لائے۔

تعلیمی جائزہ

                اسی طرح تعلیمی جائزہ میں تحصیل علم کے درجے کی پیمائش میں نفسیاتی اصول کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ذہانت، رویوں، قابلیتوں دلچسپیوں اور رجحانات کے مقداری جائزے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ  مضامین کے انتخاب اور پیشے کے انتخاب میں طلبہ کی مدد کی جا سکے اور اپنی دلچسپیوں کے مطابق نشو و نما پا سکیں۔ اس طرح وہ اپنے مستقبل قریب و بعید کی ضروریات کو پورا کر سکیں گے۔

معاشرتی اقدار

معاشرے اور تعلیم  کی بحث کرتے ہوئے بچے کی ضروریات کے علاوہ ایک دوسرا نفسیاتی پہلو معاشرتی اقدار کے مطابق بچوں کی تربیت ہے۔ اقدار

معا شرتی اصولوں  کا وہ مجموعہ ہے جن کی بنیاد پر افراد معاشرے کے اعمال کا رخ متعین کیا جاتا ہے۔

قدروں اور رویوں کاتعلق

قدروں اور رویوں کا ایک گہرا تعلق ہے۔ قدریں معاشرتی اصول و ضوابط کا نام ہے اور ان اصول و ضوابط پر پورا اترنے والا شخص معاشرے کی نگاہ میںاچھا صا حب  اخلاق، پسند یدہ اور موزوں قرار پائے گاجبکہ ان معاشرتی اقدار کو توڑنے والا شخص ان صفات کے برعکس کہلائے گا۔ قدروں کی پابندی اورعدم پابندی افراد کے رویوں کا جائزہ لینے کیلئے معیار کا کام دیتی ہے۔بعض معاشرتی معمولات  معاشرے کے نظریاتی اقدار سے متصادم ہوتےہیں۔تعلیم کا ایک اہم فرض  اس تصادم کو دور کرنا ہے۔ یہ برا کٹھن کام ہے۔ اس میں ماہر تعلیم کو بڑی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔

سوال4۔افراد کی تربیت میں تعلیم کیا کردار ادا کرتی ہے؟ تعلیم کے اقتصادی پہلو کی وضاحت کریں۔

جواب:   تعلیم کا اقتصادی پہلو

تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے ۔ اس لیے تعلیم و تعلم میں جہاں بچے کی ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہے ، وہاں معاشرے کی ضروریات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ معاشرہ یہ چاہتا ہے کہ سکول میں جا نے والے بچے معاشی طور پر با عزت زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی معیشت کو بھی ترقی دیں۔

علم برائے علم

 علم برائے حصول مسرت ،علم برائے تعمیر کردار اور علم برائے تشکیل معاشرہ جیسے نظریات اپنی  جگہ درست ہیں۔ لیکن تعلیم کا اہم مقصد معاشی ترقی بھی ہے۔ وہ دن گئےجب تعلیم کو محض ذہنی ارتقا ء سمجھا جاتا تھا۔ تصور یہ تھا کہ تعلیم پر جو بھی خرچ ہوتا ہے اس کا مادی فائدہ نہیں ہوتا۔ آج کے دور میں ترقی یافتہ معاشرے ہوں یا ترقی پذیر معاشرے ، اس بات کا اچھی طرح احساس رکھتے ہیں کہ تعلیم کا نتیجہ مادی منفعت کی صورت میں بھی ملتا ہے۔

ایک مصری ماہر تعلیم اور محقق پر و فیسر سولو نے اندازہ لگایا کہ اقتصادی ترقی میں مادی وسائل کا حصہ صرف دس فیصد ہے، جبکہ باقی نوے فیصد ٹیکنیکی اورسائنسی علوم کی مرہون منت ہے۔ یورپ میں اکر سٹ نے ناروے کی 1950 ء اور 1955ء کی مجموعی پیدا وار کا مقابلہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ قومی پیداوار میں اضافہ کا تقرر نوے فیصد حصہ سائنسی اور ٹیکنیکی ترقیات کی وجہ سے ہے۔ پر وفیسر سمتھ نے برطا نیہ کی صنعتی پیداوار کے متعلق مختلف سالوں کے شماریات کا موازنہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ صنعتی پیداوار میں اضافہ کا 25 فیصد مادی وسائل کا مرہون منت ہے اور باقی 75 فیصد اضافہ صنعتی ایجادات اور سائنسی علوم کا مرہون منت ہے۔

تعلیم کا انفرادی ترقی پر اثر

                ایک محقق پنسنن نے تعلیمی اقتصادیات کے موضوع پر تحقیقات کیں اور معلوم کیا کہ 1960 ء میں امریکہ میں وہ ترکھان جو ہائی سکول تک تعلیم یافتہ تھے ، ان تر کھانوں  سے جو صرف پرائمری پاس تھے۔ 900 ڈالر سالانہ زیادہ کماتے تھے۔ جبکہ بجلی کا کام کرنے والوں میں یہ فرق پانچ سو ڈالر کا تھا۔

                تھوڈر شلر نے امریکہ میں ابتدائی، ثانوی اور کالج کی تعلیم سے فارغ ہونے  والے لوگو ں کی آمد نیوں کا موازنہ کیا۔وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ1956 ء میں  کالج سے فارغ ہو نے والا ایک شخص اپنی  زندگی میں ایک ایسے شخص سے ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر زیادہ کماتا ہے جس نے صرف ثانوی درجے تک تعلیم  حاصل کی تھی۔لارنس ہیڈ لے نے 1976 ء میں پاکستان میں تعلیم  کے نفع بخش ہو نے کا اندازہ لگایا۔

پاکستان کیلئے زرعی تعلیم کی اہمیت

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ زمین ایک قدرتی وسیلہ ہے۔ تربیت یافتہ کسان بھی معاشرے کی افرادی قوت ہیں۔ کیو نکہ وہ نئے بیجوں ، جدید آلات زراعت اور کاشتکاری کے موزوں طریقوں کا استعمال کرکے  اس میں پیداوار کی مقدار کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی آمدنی بڑھانے کےساتھ ساتھ مجموعی قومی پیداوار میں اضا فہ کر کے معاشرے کی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنا لوجی کی تعلیم کا فروغ

سائنس اور ٹیکنا لوجی کی ترقی کے اثرات ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ چنا نچہ معاشرے کی ایک اہم ضرورت سائنس اور ٹیکنیکل  تعلیم کا انتظام کرنا  ہے۔ تاکہ مناسب تعداد میں سائنس دان انجینئر ، ڈاکٹر اور ماہرین میسر آسکیں  اور پاکستان اس معا ملے میں خود کفیل ہو سکے۔ پاکستان کی جدید ترین پا لیسیوں کے مطابق جہاں تعلیم کو عام کرنے پر زور دیا گیا ہے ، وہاں ثانوی اور اعلیٰ درجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں سے دو تہائی طلبہ کیلئےسائنسی اور ٹیکنا لو جی کی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری  سمجھا گیا ہے۔ کیو نکہ علم کے یہ شعبے مادی اعتبار سے زیادہ منفعت بخش ہیں اور معاشرے کی بنیادی ضروریات پورا کرتے ہیں۔

سوال 5۔            اسلامی تعلیم کے مقاصد تحر یر کریں۔نیز برصغیر میں اسلامی تعلیم کا جائزہ لیں۔

جواب:   اسلامی تعلیم کے پانچ مقاصد                      

                اسلامی تعلیم کے پانچ اہم مقاصد ہیں:

                           مذہبی یا دینی مقصد                                                  علمی مقصد

                           معاشرتی مقصد                                                      معاشی مقصد

                           اخلاقی مقصد

        مذہبی مقصد

            اسلامی تعلیم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ شروع سے مذہبی مقصد کو اولیت حاصل رہی ہے ۔ ایک مشہور اسلامی مفکر علا مہ زر نو جی نے بارہویں صدی عیسو ی میں خداوند تعالیٰ کی خو شنو دی اور نجات اخروی کو تعلیم کا سب سے بڑا مقصد قرار دیا۔علامہ زر نوجی لکھتے ہیں " تعلیم کا مقصد خداوند تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنا اور ابدی  حیات حاصل کرنا ہے۔" اخون الصفا کا قول ہے  "برا در عزیز ! جان لے کے علم کی ہر شاخ اس کے حاصل کرنے والے کیلئے اس وقت تک باعث مذمت اور قیا مت میں اس کے خلاف شہادت ہو گی جب تک وہ اس علم کے زریعے حیات ابدی تلاش نہ کرے"۔ْ

        علمی مقصد

                تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم کا تصور عام طور پر مذہبی اور علمی تھا۔ لیکن وہ علم  کو حاصل کرنے کے خیلاف نہیں تھے ۔مثلاََ علامہ زر نوجی فقہ کی تعلیم کے بارے میں جو عملی زندگی میں کام آنے والا علم ہے ، لکھتے ہیں  "فقہ کا علم پڑھنے اور اس کا فہم حاسل کرنے کے سلسلے میں یہ کہنا کافی ہے کہ یہ  علم ذہنی مسرت بخشتا ہے"  ابن خلدون نے علوم کی اقسام بیان کرتے ہوئےایسے علوم کی بھی نشاندہی کی ہے جو اس کے نزدیک علمی یا نظریاتی ہیں۔

        معاشرتی مقصد

            اسلامی تعلیم کا معاشرتی مقصد ہے کہ وہ مساوات ، عدل و انصاف، اخوت و محبت پر مبنی معاشرہ قائم کریں تا کہ اس کے تمام افراد اس معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکیں اور معاشرہ ترقی کر سکے۔

        معاشی مقصد

            ابن سینا ( 980 ء  تا 1037 ء ) نے تعلیم کے معاشی مقصد کی واضح طور پر نشاند ہی کی ہے۔اس نے  زور دے کر کہا کہ لڑکوں کو مختلف پیشوں کی تعلیم دی جائے۔  "جب لڑکا قرآن  مجید پڑھ لے اور عربی زبان اچھی طرح سیکھ لے تو اس  کے آئندہ پیشے کے مطا بق بنا نا چا ہیے۔"  اما  م الغزالی (1058ء تا 1111ء) نے بھی روزی کما نے کیلئے عام پیشوں کی تعلیم پر زور دیا۔  اس سلسلے میں رسول کریم ﷺ کی ایک مشہور       

                حدیث کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ  " قیا مت کے روز جو لوگ سخت عذاب  میں مبتلا ہوں گے ان میں ایک وہ عالم ہو گا جس کا علم کام نہ آیا۔

        اخلاقی مقصد

            اسلامی اخلاق کا سر چشمہ قرآن حکیم اور نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے ۔ اسلامی تعلیم میں ایسی  اخلا قی تربیت ضروری تھی جو معاشرتی نقطہ نگاہ سے اچھی سمجھی جاتی تھی۔

 

بر صغیر پاک و ہند میں اسلامی تعلیم  کی نشرو اشاعت

        اسلامی دور حکو مت اور تعلیم

            پہلی صدی ہجری کے آخر میں عربوں نے سندھ فتح  کیا۔ بر صغیر میں اسلامی  تعلیمات کا آغاز اسی واقعے سے ہوا۔ نو جوان فاتح محمد بن قاسم نے مساجد تعمیر کرائیں۔                  

                جو عبادات ، تبلیغ اور تعلیم کے اہم مراکز بن  گئیں ۔ گیار ہویں صدی عیسوی میں سلطان محمود  غزنوی کی فتوحات سے پنجاب پر مسلمانوں کی ھکومت قائم ہوئی۔ لاہور اس کا صوبائی دارالسلطنت  تھا۔ ملتان اور لاہور تعلیم کے اہم مراکز تھے۔ اس عہد میں حکومت کی سر پرستی میں قائم ہونے والے مکتبوں اور مد رسوں کے علاوہ صوفیا ئے کرام اور بزرگان دین نے علم کی اشاعت اور تعلیم کے فروغ کیلئے قیمتی خدمات انجام دیں ۔ ان حضرات نے مختلف اسلامی ملکوں سے نکل کر برصغیر کا رخ کیا تھا۔ حضرت علی ہجو یر ی ( داتا گنج بخش ) جو سلطان محمود غزنوی کے جانشینی کے عہد میں لاہور آئے ،تبلیغ اسلامی اور فروغ تعلیم میں سر پر ست ہیں۔ بارہویں صدی کے آخر اور تیر ہویں صدی کے اوا ئل میں شہا ب الدین محمد غوری اور اس کے جر نیلوں ، قطب الدین ایبک اور بختیار خلجی نے اسلامی فتوحات کا سلسلہ دہلی اور اس کے آگے بنگال تک وسیع کیا ۔ سلطان قطب الدین ایبک 1206 ء میں دہلی کے تخت پر بیٹھا، اس نے اور اس کے جانشینوں نے 1290 ء تک دہلی پر حکومت کی۔ انہیں خاندان غلاماں کہا جاتا ہے۔ اس عہد میں تعلیم کو فروغ ملا۔

                دہلی میں معزیہ اور ناصر یہ نام کے دو مدرسوں اورنگ پور (بنگال ) میں بختیار خلجی کے قائم کئے ہوئے مدرسوں کے حالات ملتے ہیں۔ اس عہد کی ایک خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ وسط ایشیا ء ایران اور عراق وغیرہ کو جب منگولوں نے تباہ و برباد کیا تو سینکڑوں مسلمان علماء اور معلمین نے برصغیر کی اسلامی سلطنت کے زیر سایہ پناہ لی۔اس کے نتیجے میں یہاں علم و تعلیم کی مسلسل خدمت کا اہتمام ہوا۔ چنانچہ سلطان غیاث الدین بلبن اور سلطان علاؤ الدین خلجی کے ادوار حکومت  علما ء اور فضلا ء کی آمد اور سلطان وقت کی طرف سے ان کی قدردانی کیلئے مشہور ہیں۔تعلیم کے بارے میں ایک مورخ مقر یز ی کی روایت ہے کہ " سلطان محمد تغلق کے عہد میں دہلی کے ایک ہزار اسلامی مدارس قائم تھے۔ مدرسین کیلئے شاہی خزانے سے تنخواہ ہیں مقرر تھیں۔تعلیم  اس قدر عام تھی کہ کنیز یں تک حافظ قرآن اور عالم ہوتیں۔     "محمد تغلق کے جانشین فیروز شاہ تغلق کے عہد میں علم و ادب کو خاص فرو غ  حاصل ہوا۔ تغلق خاندان کے زوال کے بعد سکندر لودھی نے بھی دل کھول کر تعلیم کی سر پرستی کی۔ طلب سکندری اس عہد کی مشہور تصنیف ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے قائم کردہ نظام تعلیم کی ہمہ گیر ی کے بارے میں مولا نا آزاد  بلگرامی لکھتے ہیں۔   " ہمارے صوبہ اودھ صوبہ الٰہ آباد کے بڑ ے حصے میں پانچ پانچ کوس ، زیادہ سے زیادہ دس کوس شر فا ء اور عالی خاندان لوگوں کی آبادی سے جو سلاطین و حکام  کی طرف سے تنخواہ و جاگیر مدو معاش کے طور پر  رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا قائم کردہ نظام تعلیم انگریزوں کے تسلط تک قائم رہا اور مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم رعایا بھی اس سے فائدہ اٹھاتی رہی۔



Comments