ALLAMA IQBAL OPEN UNIVERSITY ISLAM ABAD
ISLAMYAT (COMPULSORY)
Course Code: 416
Semester: Autumn 2021
Class: BA/AD
امتحانی مشق نمبر 1
سوال نمبر 1:
سورۃ الفرقان کا مختصر تعارف تحریر کریں نیز سورۃ الفرقان میں مذکور نیک
لوگوں کی خوبیاں الگ الگ تحر یر کریں۔
جواب:
سورۃالفرقان کے مضامین کا تعارف:
اس سورۃ میں مندرجہ ذیل مضامین بیان ہوئے ہیں:
1۔ کفا ر مکہ ے نبی اکرم ﷺ کی رسالت اور قرآن کے وحی الہٰی
ہونے کے خلاف جتنے اعتراضات وشبہات اٹھائے ۔اس سورت میں ین کے جواب دیے گئے ہیں۔
ساتھ ساتھ دعوت ِحق سے منہ موڑنے کے برے نتائج صاف صاف بتائے گئے ہیں۔
2۔ نبی اکرم ﷺ اور
قرآن مجید کا اصل مرتبہ ومقام بھی واضح فرمایا گیا ہے۔اس ضمن میں قرآن پر ایمان
لانے والوں کو امتحان کے مرحلے سے گزرنے کے بعد دنیاوآخرت دونوں میں کامیابی وکا
مرانی کی بشارت دی گئی ہے۔اس کو جھٹلانے پر اڑے رہیں گے ۔اتمام حجت کے نعد انہیں
ان کے انجام سے اگاہ کیا گیا ہے۔
3۔اس سورت کی آخری آیات یعنی 63تا 77جو کہ اس کورس میں شامل
ہیں۔ان میں خاص طور پراللہ تعالیٰ نے اپنے
ان بندوں کے اوصاف گنائے ہیں جن کی عقلی صلاحیتیں زندہ ہیں اور وہ اس کی نشانیوں
اور اس کی نازل کی ہوئی کتاب سے فا ئدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آگے بڑ ھ کر
قرآن مجید پر ایمان لانے والے بنے۔اس طرح ان لوگوں کا ظاہر وباطن بے نقاب ہوکر رہ
گیا قرآن مجید اور پیغمبر ﷺ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ
نے اپنے بندوں کی چند اہم صفات اور نشانیاں بھی ذکر فرمائی ہیں۔ان میں ذمین
پر عاجزی اور انکساری سے ۔4
چلنا ،جاہل لوگوں سے واسطہ پڑے تو بحث و تکرار کے بجائے
سلام کہہ کر گزر جانا ۔ راتوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور قیام وسجود اور دعائیں کرنا
، بخل اور فضول خرچی سے بچنا،شرک ،قتل اور زناجیسے بڑے بڑے گناہوںسے دور رہنا شامل
ہیں۔
حمن کے بندے ،یعنی اللہ کے پسندیدہ بندے،جوکہ کچھ اضافی
صفات کے حالم ہوتے ہیںاور ان صفات میں سے پہلی صفت یہ ہے کہ وہ تکبر وغرور
نہیںکرتے بلکہ عجز ،انکساری اور تواضع کے ساتھ رہتے ہیں ۔نہیں بلکہ اگر خیر کی
توفیق ہوتی بھی ہے تو وپ اس کو اللہ کا احسان سمجھ کر اور جب ان سے مخاطب ہوتے ہیں
جاہل لوگ تو وہ ان کو اللہ کے اگے مزید جھک جاتے ہیں۔
جاہل عربی زبان میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو مشکل مزاج
ہوں ،فورِاَ جذباتی ہوجایئں یا تھوڑی سی
بات پر جھگڑا شروع کر دیں۔اللہ کے مسندیدہ بندے ایسے لوگوں کو سلام کہہ کر الگ
ہوجاتے ہیں۔ایک طرز عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں جھگڑا ہورہاہو تو فوراَ ہی اس کے
اندر گھس کر حصہ لینا شروع کر دیا یا کوئی تماشا لگا ہوا ہے تو وہاں پہنچ جانا
لیکن اللہ کے مسندیدہ بندے ایسا نہیں کرتے بلکہ بڑے باعزت طریقوں سے الگ ہو جاتے
ہیں۔" اور وہ لوگ راتیں بسر کرتے ہیں اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام کرتے
ہوئے۔
نماز فرض ہے اور فرض کو چھوڑنے سے بندہ صرف ثواب سے ہی
محروم نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے ہاں گناہ کبیرہ کا مرتب بھی ٹھرتا ہے ۔لہذا جیسے
سورۃ المومنین میں بیان ہوا ہے کہ بندہ
مومن کے بنیادی اوصاف میں یہ شامل ہے کہ وہ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کی بر وقت اور
جمات کے ساتھ ادائیگی کا اہتمام کرتا ہے ۔ لیکن عبادالر حمٰن یعنی اللہ کے پسندیدہ
بندوں کا یہ وصف ہے کہ وہ فرض نماز کے بعد اپنی راتیں بھی سجدے وقیام میں گزرتے
ہیں ۔جیسے آنخضور ﷺ اور صحابہ کرامؒ کا معمول تھا کہ قیام اللیل کاا ہتمام کرتے
تھے جیسے ہم نماز تہجد کہتے ہیں۔تہجد میں اگر آپ نے اٹھ کر چھ یا آٹھ رکت پڑھ لیں
تو اس کا بھی اپنا فائدہ ہے لیکن اصل مطلوب یہ ہے کہ قیام میں زیادہ سے زیادہ قرآن
پڑھا جائے ۔جیسے آنخضور ﷺکا ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک رکعت میں آپؐ نے سورۃ
البقرۃ،آل عمران ،النساء پڑھی ہیں ۔چنانچہ یہ عبادالرحمٰن کا اضافی وصف ہے کہ وہ
فرض نماز کی ادائیگی کے بعد قیام اللیل کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔"اور وہ لوگ
دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! عذابِ جہنم کو ہم سے پھیر دے یقینا اس کا عذاب
چمٹ جانے والی شے ہے"۔ یقینا وہ بہت بری جگہ ہے مستقل ٹھکانے کے لیے بھی اور
عارضی قیام کے لیے بھی "۔ یعنی اپنی راتیں اللہ کے خضور جاگتے ہوئے گزارنے کے
بعد انہیں یہ احساس ہر گز نہیں ہوتاکہ ہمارا مقام اللہ کے ہاں اونچا ہے یا ہم جنت
کے وارث ہیں بلکہ وہ پھر بھی خشیت الٰہی سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور اس احساس
سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم سے کوئی خطاء نہ ہوجائے ۔رب کا کوئی حکم ہم سے نہ رہ جائے
۔چنانچہ وہ ہر وقت تشویش میں ہوتے ہیں اور دعا کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں جہنم
کے عذاب سے بچا ۔"اور وہ لوگ کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ
بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کے بین بین معتدل ہوتاہے۔
یہ وہی اوصاف ہیں جو ایک بہت ہی سمجھدار اور سنجیدہ انسان
میں ہونے چاہیں ۔ یعنی لغویات سے پرہیز کرنا ،جاہلوں سے الجھ کر اپنا وقت اور طبیت
خراب کرنے کی بجائے خوش اسلوبی سے علیحدہ ہوجانا ۔چنانچہ اسی سمجھداری اور
میچیورٹی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ بندہ جب خرچ کرے تو نہ زیادہ اسراف کرے اور نہ
ہی بخل سے کام لے بلکہ اعتدال سے خرچ کرے اور یہی اللہ کے پسندیدہ بندوں کا شیوا
ہے ۔
اس کے بعد اس رجوع میں کبیرہ گناہوں کا ذکر آیا ہے اور اسی
کے ذیل میں ایک بہے مخمون آیا ہے اور وہ ہے توبہ کا مضمون جو آگے آرہا ہے"
اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو "۔"اور نہ ہی
کبھی وہ زنا کرتے ہیں "۔"اور جو کوئی بھی یہ کام کرے گا وہ اس کی سزا کو
حاصل کرکے رہے گا"۔"قیامت کے دن اُس کا عذاب دو گنا کردیا جائے گا اور
وہ اس میں رہے کا ہمیشہ ہمیشہ ذلیل ہوکر"۔ یہاں ایک تو بڑے بڑے گناہوں کا ذکر
کر دیا گیا اور وہ ہیں شرکک کرنا ،ناحق کسی کو قتل کردینا اور زنا۔
سوال نمبر 2: سنت کالغوی اور اصطلاحی مفہوم واضع کریں
نیزقرآن کی روشنی میں سنت کی اہمیت بیان کریں۔
جواب :
لغت میں سنت اس راستے کو کہتے ہیں جس پر چلا جائے ،
خواہ وہ راستہ اچھا ہو یا برا ۔لیکن شرعی اصطلاح میں سنت سے مراد حضور اکرم ﷺ کے
افعال واقوال ہیں یا ایسے کام جو سرورِ کائنات ﷺ کے سامنے کیے گئے ہوں اور آپ ﷺنے
انہیں پسند فرمایا ہو۔سنت کا اطلاق ایسے امور پر بھی ہوتا ہے جو خلفائے راشدین ؒ
نے کیے ہوں یا ان کے کرنے کا حکم ہو ۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں:
"تم پر میرے طریق کا راور میرے بعد خلفائے راشدین کے
طریقے کو اختیار کرنا لازم ہے"۔
حضور اکرم ﷺ کے قول وفعل کا نام سنت یا حدیث ہے ۔لہذا حدیث
کو وہی اہمیت حاصل ہے جو رسول ِکریم ﷺ کی اطاعت کو۔اسلامی عقائد میں ایمان باللہ
کے بعد ایمان بالرسول کا درجہ ہے ۔ایک اعتبار سے رسالت کا مقام اہم ہوجاتاہےکہ
لوگوں کو رسولوں کے زریعے خدائے لم یزل کا تعارف کرایا گیا ہے۔اگر انبیاء نہ ہوتے
تو ہم خدا کو پہچاننے میں غلط فہمی کا شکار ہوتے۔چنانچہ ارشادِربانی ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ
"جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت
کی"۔
اللہ تعالیٰ نے آپ
کے افعال کو ہمارے لیے اُسوہ حسنہ اور آپ ﷺکی سیرت ِمقدسہ کو ہمارے لیے مشعل راہ
قرار دیا۔قرآن مجید میں ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ
أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ
"بے شک
تمہارے لیے رسول اکرم ﷺ کی ذات میں بہتر ین نمونہ مو جود ہے"۔
قرآن کریم نے واضع الفاط میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ
انبیاء کی بعث کا مقصد ہی یہ ہے کہ ان کی سیرت وحیات کی روشنی میں امت اپنی منزل
مقصود تک پہنچ سکے اور ان کی ہدایت پر علم کر کے اپنے دامن کو فلاح ونجات سے مالا
مال کر سکے ۔ چنانچہ فرمایا:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ
اللّٰهِؕ-
"ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ
تعالیٰ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔"
سنت ،قرآن ِحکیم کی روشنی میں:
قرآن کی بکثرت آیات میں اطاعت ِرسول ﷺ کا حکم دیا گیا
ہے۔رسول کی اطاعت اسی لیے کی جاتی ہے کہ وہی ایک معتبر ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا
تعالی ٰ کے احکام پہنچے ہیں۔ہم خداتعالیٰ
کی عبادت بھی رسولﷺ کی پیروری کے بغیر نہیں کر سکتے ۔ رسولﷺ کی اطاعت سے انحراف
خداتعالیٰ کے خلاف بغاوت ہے۔
اس مضمون کو اس حدیث میں واضع کیا گیا ہے:
أطاعني فقد أطاع الله، ومن يعصني فقد عصى الله
"جس نے
میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ
تعالیٰ کی نافرمانی کی"۔
آنحضور ﷺکے اس دُنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپﷺ کی اطاعت
کی صرف یہی صورت باقی رہتی ہے کہ آپﷺ کے اقوال وارشادات ،آپﷺ کی حیات وسیرت
اورآپﷺکے بتئے ہوئے راستے کو واجب الاباعت قرار دیاجائےاوران کو عملی زندگی میں
اپنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے بیان کردہ احکام کا مجموعہہ حدیث ِنبوی
ﷺکی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ یہ حضورﷺ کے عظیم ہونے کی وہ خصوصیت ہے جو آپ ﷺ
کو دیگر انبیاء ورسول میں ایل امتیازی مقم عطا کرتی ہے۔اس سے واضع ہوتاہے کہ
مسلمانوں نے رسول اکرم ﷺ کے اقوال و اعمال اور آپ کی حیاتِ طیبہ کی حفاظت میں کوئی
کسر نہیں اُٹھا رکھی ۔دُنیا کی کسی قوم نے اپنے ہادی کے اقوال واعمال اس احتیاط کے
ساتھ جمع نہیں کیے ۔یہاں تک کہ غیر مسلموں نے بھی کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا
ہے۔
قرآن حکیم نے اطاعت رسول ﷺ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
ومااتٰکم الرسول
فخذوہومانھکم عنہ فانتھوا
" ہمارے رسول جو کچھ تمہیں دے وہ لے لو اور جس سے منع
کے اس سے بازرہو"۔(الحشر :7)
وماارسلنامن رسول
الالیطاع باذن اللہ
"ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ
تعالیٰ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔"(النساء:64)
ومن یطع الرسول فقد
اطاع اللہ
"جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت
کی"۔(النساء:80)
وان تطیعون تھتدو
"اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤگے
(النور:54)
مزکورہ صدر آیات سے بات واضع ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
رسول پاک ﷺ کو دنیا میں نمائندہ بنا کر بھجا تھا خدا کے احکام براہِراست ہم پر
نہیں اُتر ے بلکہ حضور ﷺ کے واسطے سے ہم تک پہنچے ہیں۔وہ محض اس لیے مبعوث نہیں
کیے گئے کہ خدا کی نازل کردہ کتاب ہمیں پڑھ کر سنا دیں،بلکہ وہ اللہ کی کتاب کے
اولین مفسر اور ترجمان ہیں ۔ انسانوں کو اخلاق ِ قبیحہ سے پاک کرے ہیں اور کتا ب
وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
سوال نمبر 3: حدیث کی روشنی کامل ایمان کی پہچان تحریر کریں
نیز بتائیں کہ ارکان دین کی پابندی کیوں
ضروری ہے؟
جواب:ایمان کامل کی پہچان یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان
بھائی کے لیے بھی اس چیز کو پسند کرے جسے وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔مثلاَ اگر شحص
کو یہ پسند نہیں ہے کہ اسے برے القاب سے پکار ا جائے تو وہ دوسرے مسلمان بھائی کو
بھی برے ناموں سے نی پکارے ۔اسی طرح اگر کوئی شحص یہ چاہتا ہے ۔کہ گالی گلوچ سے اس
کی تحقیر نی کی جائے تو وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو بھی نہ گالی دے اور نہ اس
کی تحقیر کرے۔
لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ
مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ”.
ترجمہ:
کوئی شخص اس وقت تک پورا مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے مسلمان
بھائی کے لیے بھی اسی چیز کو پسند کرے جسے وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
تشریح:
آنحضرت ﷺ نے اسلامی معاشرے میں توازن قائم رکھنے کے لئے بہت
سے احکام ارشاد فرمائے ہیں ۔خود غرضی معاشرہ کے لیے زہر قاتل ہے اس لیے مومن کامل
خود غرض نہیں ہوتا اور دوسروں کے لیے اسی چیز کو پسند کرتا ہے ۔جو بذات خود اس کو
پسند ہو۔مطلب بر آری اور خود غرضی لیے اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو خودغرضی معا شرہ
کے لیے زہرقاتل ہے ۔ اس لیے مومن کا مل خود غرض نہیں ہو تا اور دو سروں کے لیے اسی
چیز کو پسند کر تا ہے۔ جو بذا ت خود اس کو پسند ہو ۔ مطلب بر آری اور خو د غرضی
اسلامی اخوت کے منا فی ہے ۔ اس لیے آپ ﷺ نے مو من کا مل کی نشانی یہ بتا ئی کہ وہ
دو سروں کے لیے اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو خو د اسے مر غوب و محبوب ہو۔ جو چیز
اسے نا پسند ہو اسے دوسروں کے لیے بھی نا پسند کرے ۔ ایما ن کا مل کا تقا ضا ہے کہ
جس با ت سے فا ئدہ ہو اس میں دوسروں کو بھی شریک کر ے ۔ حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ
سچے مومن کع کشادہ دل ہو نا چاہیے ۔ فو ائد و منا فع خواہ دینی ہو یا دنیوی ۔ ان
کو اپنی ذات تک محدو د رکھنا بخل ہے اور مومن کے لیے بخیل ہو نا منا سب نہیں۔
1۔ بنی الاسلام علی خمس شھادۃ ان لا الہ الااللہ
وا ن محمد عبدہ ورسولہ واقام الصلوۃ و ایتاء الذکو ۃ و حج البیت و صوم رمضان (متفق علیہ )
ترجمہ:
اسلام کی بنیا د پا
نچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ۔ 1۔ ایک تو اس با ت کی گو اہی دینا کہ اللہ کے سوا کو ئی
سچا معبود نہیں اور حضرت محمدﷺ اس کے بندے
اور رسول ہیں ۔2۔ نماز قا ئم کرنا ۔ 3۔زکوۃ ادا کر نا ۔ 4۔ بیت اللہ کا حج کرنا ۔
5۔ رمضان کے روزے رکھنا۔
تشریح:
مذکو رہ بالا حدیث میں دین اسلام کی پا نچ بنیا دوں کا ذکر
کیا گیا ہے۔ جس طر ح عمارت کی تکمیل چا ر دیو اروں او ر ایک چھت سے ہو تی ہے ، اسی
طر ح دین اسلام کی تکمیل حدیث میں مذکو رہ پا نچوں ارکان سے ہو تی ہے اگر ان میں
سے ایک رکن بھی کم ہو تا دین کی عمارت ادھوری رہے گی بلکہ اسے عمارت کی بجا ئے
کھنڈر کہنا موزوں تر ہو گا ۔ اسلام کی یہ پا نچ بنیا دیں یا ارکا ن مندرجہ ذیل
ہیں۔
1۔ توحید ورسالت :
کلمہ طیبہ یعنی "لاالہ الااللہ محمد
رسول اللہ "دین اسلام کے دو اہم
عقائد پر مشتمل ہے۔اس کے پہلے جزو یعنی "لاالہ الااللہ
"سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ
تعا لیٰ کے وا کوئی معبودنہیں ۔وہی حاجت روا ،مشکلات کو دور کرنے والا اور مصیبت
کے وقت کام آنے والا ہے اس کی ذات و صفات میں کوئی دوسرا شریک نہیں ، اسی کا نام
توحید ہے۔توحید کو اسلامی عقائد میں اساسی ق بنیادی حیثیت حاصل ہے،بلکہ یوں کہہیے
کہ توحید حاصؒ آؒسام اور روحِ دین ہے۔
توحید کے ساتھ
ساتھ ایل اسلام کو اس امر کی شہادت دینے کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ آنخضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس
کے رسول ہیں۔رسال کے معنی"پیغام "کے ہیں۔پیغام پہنچانے والے کو رسول
کہتے ہیں ۔اسلام کی اصطلاح میں رسول اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا پیغام
اس کے بندوں تک پہنچائے ۔رسول پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ تسلیم کے ہ
رسول جو کچھ کر رہے ہیں وہ انہیں اللہ تعالیلٰ کی طرف سے عطا کیا گیا ہے ،اس لئے
یہ بات خود بخود لازم ٹھراتی ہے کہ زندگی کت تمام معاملا ت میں انسان اسی طریقے کو
اختیار کرے جسے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے اختیار کیا۔ قرآن ِکریم نے اطاعت ِرسول ﷺ
پر بھی روشنی ڈالی ۔اس سے معلام ہوا کہ کلمہ طیبہ توحید ورسالت کےدو بنیادی عقائد
پر مشتمل ہے۔
2۔ امامت صلوۃ:
توحید ورسالت کے
بعد دین اسلام کے چار عملی ارکان میں نماز کو بنیادی حاصل ہے۔ کتاب وسنت میں نماز
کی بے حد تاکید وار دہوئی ہے۔قرآن کریم نے اقامت صلوۃ کا حکم دیا ہے ۔ اقامت کے
معنی "نماز پڑھنے کے نہیں" ،بلکہ اس کا مہفوم یہ ہے کہ :
"نماز
پابندی ،التزام اور پوری شرائط وآداب کے ساتھ ادا کی جائے ۔
امام ابو حنیفہ
احمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ :
"بے نمازی کو قید میں رکھا جائے اور جب تک توبہ نہ کرے
اسے رہانہ کیا جائے"۔
3۔ زکوۃ
اللہ تعالیٰ نے ہر
مالدار مسلمان پر فرض کیا ہے کہ اگر اس کے پاس مال کی ایک مقررہ مقدار ہو اور اس
پر پورا ایک سال گزر جائے تو وہ اس میں اڑ ھائی فیصد انپے کسی غریب اشتی دار یا
کسی محتاج رشتہ دار کو ،کسی نو مسلم کو ،کسی مسافر یا کسی قرضہ دار کو دے دے ۔اس
طرح اللہ تعالیٰ نے امیروں کی دولت میں غریبوں کے لیے ایک حصہ مقرر کر دیا ہے ۔
زکوۃ کا سب سے فائدہ یہ ہے کہ دولت سمٹ سمٹ کر ایک جگہ جمع نہیں ہوتی بلکہ گردش
کرتی رہتی ہے ۔ا س طرح زکوۃ کے ذریعے امرا ء و غرباء کے طبقات میں توازن و اعتدال
پیدا ہوتا ہے۔
4۔ حج :
عمر بھر میں ایک
مرتبہ حج ادا کرنا فرض ہے ،بشرطیکہ وہ شحض سفر اور اپنے متعلقین کے ضروری اخراجات
برداشت کر سکے ۔حج اہل اسلام کا سالا نہ عالمی اجتماع ہے۔ حج حضرت ابراہیم خلیل
علیہ السلام کی ےاد تازہ کرتا اور امت میں
اتحاد و یکجہتی کی روح برقرار رکھتا ہے ۔دنیا کے گوشےگوشے سے مسلمان مکہ معظمہ میں
جمع ہو کر اسلامی براردری کا روح پر ور منظر پیش کرتے ہیں۔
5۔ رمضان کے روزے :
روزہ کیا ہے ؟ جس
سبق کو نماز روزانہ پانچ وقت یاد دلاتی ہے ، اسے روز سال مین ایک مرتبہ پورے ایک
مہینے تک ےاد دلاتا رہتا ہے ۔ طلوعِفجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور ہر
قسم کی برائی سے باز رہنا روزہ ہے ۔قرآن کریم نے روزے کی حکمے یہ بیان کی ہے کہ:
"روزہ انسان کو پر ہیز گار بناتا ہے ۔ روزے سے
صبروتحمل ،جفاکشی اور نادار لوگوں سے تعاون و ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں"۔مذکورہ صدر پانچ
ارکان کو دین اسلام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔
سوال نمبر 4۔:
اسلام کا مہفوم تفصیل سے واضع کریں نیز اسلام کی اہمیت پر جامع نوٹ لکھیں۔
جواب :دین اسلام سے مراد
لفظ "اسلام
" کے عر بی میں تین بنیادی لغوی معنی ہیں
ا)آفتوں وغیرہ سے محفوظ ہونا ،سلامتی پانا
ب)صلح کرنا ،امن وامان پانا
ج)حکم بجالانا،فرماں برداری اختیار کرنا ،سرتسلیم خم
کردینا۔
اس طرح اسلام کا
مطلب ہوا"اللہ تعالیٰ کے آگے اطاعت کے لی سر جھکا دینا اور اس کے حکم بے چوں
وچرا بجا لانا ،دین اسلام کے لفظی معنی بنیں گے ۔"اللہ تعالیٰ کی بے چوں وچرا
فرماں برداری اختیار کرنے کا طریقہ یا مذہب " اس طرح ہمارے دین کے نام سے ہی
امن و ؎صلح ،حفاظت اور سلامتی کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا تصور وابستہ
ہے۔دنیا کے کسی مذہب کے نام میں یہ بات نہیں پائی جاتی ۔
دین اسلام کی اہمیت
دین اسلام کے
بارے میں قرآن کریم میں دو بنیادی باتیں بیان ہوئی ہیں ان کو ذہن میں رکھنا چاہیے
۔
1۔ اللہ تعا لیٰ کا پسندیدہ دین:
اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے۔
ان الدین عنداللہ
الاسلام (آل عمران:19)
یقیناَ
اللہ تعالیٰ کے ہاں تو دین اسلام ہی ہے۔
2۔ قابل قبول صرف اسلام
و من یبتغ غیر
الاسلام دینا فلن یقبل منہ و ھو الاخرۃ من الخسرین۔
اور جو شخص اسلام کے سول کوئی اور دین ،مذ ہب یا طریقہ چاہے
گا تو اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا۔ اور آخرت میں نقصان اٹھانےوالوں میں سے ہو
گا۔
3۔ تمام انبیاء کا دین اسلام
قرآن کریم میں یہ بات ایک سے زیادہ جگہ پر واضع کر دی گئی
ہے کہ تمام نبی اور رسول ،جو دین لے کر آتے رہے ۔ وہ اسلام ہی تھا ۔ اس کے بنیادی
عقائد اور عبادات واحکام ہمیشہ اصولی طور پر یکساں ہی رہے ۔صرف کیفیت میں فرق ہونا
اور بات ہے ۔ تمام انبیا ء اورع ان کے پیر واپنے زمانے کے مسلمان تھے۔چاہے ان کی
اپنی زبان میں"اسلام "کے لیے جو بھی لفظ بولا جاتا ہے ۔
ہمارے بنی حضرتت
محمد ﷺ نے بھی ، جو سب سے آخری نبی ہیں ۔ وہی دین پیش کیا جو پہلے انبیا ء پیش
کرتے رہے۔
دین اسلام کی امتیازی خصوصیا ت
تمام بنی اور رسول ، جو دین لے کر آتے رہے وہ اسلام ہی تھا
۔ اس کے بنیادی عقائد اور عبادات واحکام ہمیشہ اصولی طور پر ئکساں ہی رہے ،صرف
کیفیت میں فرق ہوتا تھا ۔تمام انبیاء اور ان کے پیرواپنے زمانے کے مسلمان تھے ۔
ہمارے نبی ﷺ نے بھی ،جو سب سے آخری نبی ہیں "وہی دین
پیش کیا جو پہلے انبیا ء پیش کرتے تھے ۔فرق صرف تین باتوں میں ہے ۔
ا)پہلی امتین اپنے رسولوں کی اکژ تعلیمات محفوظ نہ رکھ سکیں
۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی اصل
تعلیمات کی حصوصی طور پر حفاظت فرمائی
ب)دوسرے یہ کہ پہلے کبھی دین کی باتیں اپنی جامع اور مکمل
نہیں بتائی گیئں جتنی آنحضور ﷺ کے ذریعے بتائی گیئں ۔
ج)آنحضور ﷺ آخری نبی ہیں ۔ اب احکام کی تفصیل میں آپﷺ کی
پیروری کی جائے گی ۔ کیونکہ پہلے انبیاء کے احکام یا تو محفوظ نہ رہے ےا جامع اور
مکمل نہ ہونے کے باعث تھے ۔ دائمی نہ تھے۔
دین اسلام کی تعلیمات کا تار یخی
پسِ منظر
اب ہم حضرت ﷺ کے
لائے ہوئے اور سیکھائے ہوئے دین پر اس کے تاریخی پر منظر پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے
ہیں۔
دین اسلام کا یہ
" محمدی دور " آج سے کم و بیش چودہ سو سال پہلے اس دن شروع ہوا ۔جس دن
حضرت محمد ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا۔اس سے پہلے آنحضور ﷺ اپنے شہر مکہ مکرمہ میں
اپنی عمر کے چالیس سال گزار چکے تھے ۔ آپﷺ کے ہم وطنوں کا عام مذہب شرک اور بت
پرستی تھا ۔وہ لوگ اور بھی بیسوں قسم کی خرابیوں مین مبتلا تھے ۔کیونکہ وہ مرنے کے
بعد دوبارہ کسی زندگی کے قائل نہ تھے ۔بلکہ سختی سے اس کا انکار کرتے تھے ۔اس ماحول
میں ہمارے آقا ﷺ نے اپنی زندگی کے چالیس سال اس طرح گزارے کہ سب لوگ ان کے اخلاق
وعادات اور سیرت وکردار کے مداح تھے۔سارے شہر میں ان کی سچائی اور امنت کی تبلیغ
شروع کی کہ اللہ تعالیٰ نے خو د مجھے تمہاری طرف اپنا پیغام والا مقرر کیا ہے
اوراس میغام کی بنیادی باتیں دو ہیں
(1) یہ کہ اللہ
کے سوا کسی اور کی عبادت ہرگز نہ کی جائے ۔
(2) یہ کہ پرنے
کے بعد تم سب دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے اور وہاں تم سے اس زندگی میں کیے گئے کاموں
کا حساب لیا جائے گا ۔ جن لوگوں نے آپﷺ کی تصدیق کی، آپ ﷺپر ایمان لائے۔ وہ مسلمان
کہلائے اور انکار کرنے والے کافر۔آہستہ آہستہ ان دونوں گرہوں کا دائرہ پورے عرب تک
تبلیغ کی ۔یہاں تک وسیع ہو گیا ۔تئیس برس تک حضرت محمد ﷺ نے "دین اسلام"
کی تملیغ کی ۔یہاں ےک کہ پورے عرب میں آپﷺ کا دین پھیل گیا ۔اس مدت میں آپﷺ کو کیا
مشکلات پیش آئیں او رآپ ﷺ کو کیسے کامیا بی حاصل ہوئی ۔سیرت ِپاک ﷺ پر لکھی ہوئی
سینکڑوں کتابوں مہیں پوری طرح یہ داستان محفوظ ہے۔ آنحضورﷺ نے تئیس برس کی مدت میں
دین اسلام کے بنیادی عقائد یا ایمانیات اور ہر قسم کے ضروری،عملی احکام جس کی
تفصیل اور وضاحت سے بیان فرمائے وہ سب کچھ "کتاب و سنت " میں محفوظ ہے
۔ہم آج بھی حضرت ﷺ کے لائے دین اسلام کو "قرآن وحدیث " کی مدد سے بلکل
اسی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔جیسے آنحضرتﷺ کے اپنے زمانے میں، بلکہ آپﷺ کے سامنے بیٹھ
کر سیکھنا ممکن تھا۔
سوال نمبر 5:
توحید کا لغوی اور اصطلاحی مہفوم واضع کریں نیز توحید اہمیت پر جامٖع نوٹ
لکھیں۔
جواب:1۔ توحید کے لفظی اور اصطلاحی معنی:
لفظ توحید کے لغوی
معنی ہیں "ایک بنایا اور یکجا کرنا " اس کی اصل "وحدت
" ہے ۔اصطلاح کے طور پر لفظ "توحید " اب لاالہ الااللہ " کے
معنی مین استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی :اللہ کے سوا کسی کو ہر گز الہٰ نہ ماننا ۔
2۔ توحید کی اہمیت :
توحید دین اسلام کا پہلا بنیادی اصول ہے ، اسلام کا سارا
نظام ہی توحید کے گردگھومتا ہے ۔توحید ہی تمام انبیاء کی دعوت کا بنیادی نقطہ تھا۔ اور اسلامی زندگی اول وآخر
توحید کے ساتھ وابستہ ہے ۔توحید کا مضمون قرآن کریم مین بار بار اور کئی طریقوں سے
بیان ہو ہے۔ مثلاَ
1۔ لاالہ الااللہ ( اللہ کے سوا
کوئی بھی الٰہ نہیں ہے ) یہ عبادت قرآن کریم میں 12 جگہ آئی ہے۔
2۔ لاالہ الاھو (اس کے سوا کوئی بھہ الہٰ نہیں ہے)یہ بات قرآن مجید میں 30
دفعہ دہرائی گئی ہے۔
3۔ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے متکلم کے صیغہ میں لاالہ الاانا (میرے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے ) تین جگہ آیا ہے ۔
4۔ الھکم الہواحد ( تم سب کا الہٰ ایک ہی ہے )یہ بات قرآن مجید میں 6 جگہ
بیان ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں یہ بات متعد بارمختلف طریقوں سے اور مختلف سورتوں میں
بہ تکرار بیان ہوئی ہے تمام نبیوں اور رسولوں کی تعلیم میں توحید ہی سرفہرست تھی ۔
کسی بھی بگڑی ہوئی امت کی اصلاح کا پیغمبرانہ طریقہ یہی رہا ہے کہ سب سے پہلے
عقیدہ توحید درست اور مضبوط کیا جائے ۔خود ہمارے نبیﷺ نے اپنی دسوت کا آغاز اسی سے
فرمایا ۔
کہیں انماھوالہ واحد(بات تو صرف اتنی ہے کہ وہ اکیلا الہٰ ہے) کہیں ومامن الہ الااللہ(اللہ کے سوا کسی طرحکا کوئی الہٰ نہیں) اور کہیں مالکم من
الہ غیرہ (تمہارا اس کے سوا کوئی اور کسی طرح کا الہٰ نہیں ہے ) کہہ کر مختلف
طریقوں سے یہی مضمون ذہن نشین کرایا گیا ہے۔پورے قرآن مجید میں اسم جلالت
"اللہ"کل 2696 دفعہ آیا ہے۔ اور لفظ" الہٰ "125 جگہ اور الھہ
کل 36 جگہ آیا ہے ۔اس سے زندہ کیجیے کہ قرآن مجید میں اس مضمون پر کس قدرتفصیل اور
وضاحت سے بات کی گئی ہے۔
قرآن کریم نے صرف یہی نہیں سمجھایا کہ توحید کتنی اہم اور
ضروری ہے،بلکہ یہ بھی وضاحت سے سمجھایا ہے
۔ کہ توحید کسے کہتے ہیں یہ مضمون "کتاب وسنت"میں اس تفصیل سے بیان ہوا
ہے کہ صرف اس موضوع پر مستقل تالیفات موجود ہیں۔
4۔عقیدہ توحید کی برکات
جب عقیدہ توحید
کے دل ودماغ میں رچ بس جاتاہے تو اس کا لازمی یہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
1۔آدمی صرف ایک معبود حقیقی "اللہ" کے خوف کے سوا
ہر قسم کے خوف اور ڈر سے نجات پا لیتا
ہے۔ہر وہ آدمی جو اس بات پر پکاایمان رکھتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اسے نفع پہنچا
سکتا ہے نہ نقصان ،ہر خوف اور اندیشے سے بالاتر ہوجاتا ہے۔
2۔آدمی تو ہمات کی گندگی اور جھوٹے "خداؤں "کی
گندگی سے بلند تر ہو کر انسانیت کے حقیقی شرف سے بہر ہ ور ہوسکتا ہے ۔ایک خدا کے
سامنے سجدہ ریز ہونے سے وہ جگہ جگہ ناک رگڑنے کی ذلت سے بچ جاتا ہے اور اس میں
جذبہ حریت پیدا ہوتا ہے ۔
3۔ ایک ہی الہٰ "اللہ " کی مخلوق اور بندے ہونے
کی حیثیت سے تمام انسان برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔عقیدہ توحید سے خود بخود آدمی کے
اندر نبی نوع انسان کی وحدت اور مساوات کا
تصور بھرتا ہے ۔
4۔ جہاں سب ایک مالک کے بندے کا عقیدہ موجود ہو وہاں ہر قسم
کے طبقاتی ،علاقی اور نسلی امتیازات مٹ جاتے ہیں۔
5۔ قرآن کریم میں یہ بات متعد د بار مختلف طریقوں سے اور
مختلف سورتوں میں بہ تکرار بیان ہوئی امت کی اصلاح کا پیغمبر انہ طریقہ یہی رہا ہے
کہ سب سے پہلے عقیدہ توحید درست اور مضبوط کیا جائے ۔خود ہمارے نبیﷺ نے اپنی دعوت
کا آغاز اسی سے فرمایا۔
Comments
Post a Comment