علامہ
اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد
درجہ : بی اے / بی
ایس / ایسوسی ایٹ ڈگری
کورس : sociology
/ عمرانیات کوڈ
: 413
سمسٹر: خزاں 2021ء
امتحانی
مشق نمبر1
سوال نمبر1: معا شر تی مسائل کی جا مع تعر یف کر یں
نیز پا کستا ن میں معا شرتی مسا ئل کی صورت حال بیان کر یں۔
جواب: (1) معا شرتی مسائل سے مراد :
افرا د کسی
بھی ریاست کا اہم ستون ہوتے ہیں ۔کسی بھی ریاست کی زمہ داریوں میں لوگوں کی بنیاد
ضروریات جیسا کی خوراک ،تخفظ،روزگار وغیرہ کو پورا کرنا سر فہرست ہے۔ جب لوگوں کی
بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں تو معاشرے میں مختلف نوعیت کے مسائل جنم لیتے ہیں
جن کو معا شرتی مسائل کہتے ہیں۔
آج کے
پیچیدہ دور میں چاہے وہ ترقی یافتہ دنیا ہے یا ترقی پذیر ممالک سب کو مختلف نوعیت
کے مسئل کا سامنا ہے۔
(2) معاشرتی مسائل کی تعریف
لینڈ برگ کے مطابق
"معاشرتی
مسئلہ ایک ایسا انحراف پر مبنی رویے کا نام ہےجو لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے
لیے کسی خاص سمت میں معاشرے کے مطابق حدود سے باہر ہوتے ہیں"۔
(3) وضاحت
اس کی وضاحت ہم
یوں بھی کر سکتے ہیں کہ معاشرتی مسائل سے مراد ایسی حالت ہے جس میں لوگوں کی ایک
بڑی اکژیت پر اس کے منفی اژرات مرتے ہوتے ہیں۔ یا یہ ایک ایسے نا پسند یدہ رویہ کا
نام ہے جس سے لوگوں کی اکژیت درست کرنا چاہتی ہے۔معاشرتی مسائل تب جنم لیتے ہیں جب
معاژرے کے رائج کردہ قوانین سے انحراف کیا جا تا ہے۔ معاشرتی مسائل چونکہ رائج
نظام معاشرت کے لیے خطرہ ہوتے ہیںاس لیے انکار بر وقت سد باب ضروری ہوتا ہے ایسا نہ ہو تو یہ معا شرتی استحکام کو چیلنچ
کرتے ہیںاور اس کے استحکام کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
(4)معاشرتی مسائل کے عناصر
معاشرتی مسائل
کے عناصر درج ذیل ہیں:
معاشرتی
مسائل کو لوگوں کی اکژیت نا پسند حالت گردانتی ہے۔
معاشرتی
مسائل کو انفردی طور پر حل نہیں کیا جا سکتا ،اس کے لیے اجتماعی کو ششوں کی ضرورت
ہوتی ہے۔
معاشرتی
مسائل سے لوگوںکی اکژیت براہ راست متاثر ہوتا ہے۔
معاشرتی
مسائل کی پیچیدگیوں کو سمجھنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
(5)پاکستان
کے اہم معاشرتی مسائل :
معاشرتی مسائل اور خرابیوں کا سامنا دنیا کے
تمام معاشرے کرتے ہیں ۔پاکستان بہت سے معاشرتی مسئل سے گھرا ہوا ہے ۔ اصل مسئل یہ
نہیں ہے کہ پاکستان میں مسائل بہت زیادہ ہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان مسا ئل کو
کتنی توجہ دی جاتی ہے اور ان کے حل کے لیے
کیا اقدامات اٹھائے جاتے ہیں؟جب معاشرتی مسائل کو بر وقت توجہ نہیں دی جاتی تو وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی مسائل معاشرے کے لئے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں اور معاشرے پر
منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔معاشرہ بدامنی ،منشیات کے استعمال ،سمگلنگ رشوت ،ستانی
،غربت،ناخوندگی،عدم تخفظ جیسےمسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ
کاری میں کمی،معاشی ابتری اور مہنگائی جیسے ایشو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہےاور ان
تمام معاشرتی مسائل کا سامنا کررہاہےجو دیگر ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہیں۔تاہم
سیاسی عدام استحکام کی وجہ سے اس کے معاشرتی مسائل اور بھی سنگین صورت اختیار کر
چکے ہیں۔
(1)غربت (2)خواتین کا کم تر
معاشرتی مقام
(3)کثرت
آبادی (4)وسائل کی غیر مساوی
تقسیم
(5)مہنگائی (6)سیاسی عدم استحکام
(7)بےروزگاری (8)دہشت گردی
(9)بچوں
کی مشقت (10)ناخوندگی
(11)لاقانونیت (12)بنیادی سہولیات صحت
(13)ناانصافی (14)نسلی و لسانی اور
فرقہ وارانہ اختلافات
(15)جرائم (16)انسانی حقوق کے
مسائل
(17)توانائی
کا بحران (18)انخراف/بےراہ ردی
(19)منشیات
کا استعمال (20)رشوت ستانی
(21)انتقال
آبادی (22)سمگلنگ
(6)معاشرتی
مسائل کے اثرات
1.
جیسے جیسے معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تو ان میں
کئی سماجی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔کسی بھی
تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال میں
لوگوں کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ نئی جہتوںکو اپنائیں یا پرانی
اقدام کے ساتھ منسلک رہیں۔ایسی صورت میں عام طور پر معاشرے میں کھچاؤ کی صورت پیدا
ہو جاتی ہیں۔ترقیاتی حکمت عملیوں میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کی وہ اس سماجی
کشیدگی اور کھچاؤکی صورت حال کو پر امن
سماجی ہم آہنگی میں تبدیل کریں تاکہ یہ مزید آگے معاشرتی مسائل کا روپ نا دھار
لیں۔
2.
معاشرتی مسائل کے کسی بھی معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔جس میں سے ہم اثر معاشرہ کے امن و استحکام اور لوگوں کی ہم آہنگی پر پڑتاہے۔جس
سے معاشرہ میں جارحیت اور عداوت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔جو معاشرے میں عمومی مایوسی
اور سماجی بے اطمینانی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں ۔مجموعی طور پر معاشرتی مسائل میں
اضافہ کرتے ہیں ۔
3.
اس امرا کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ لفظ مسئلہ کے کوئی ایک
معنی نہیں ہیں بلکہ اس کے معنی وقت اور جگہ کے اتھ اتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔کسی
بھی مسئلے کے معنی کی نوعیت اور شدت کا ہودہ کل بھی انہی معنوں میں لیا جا ئے ۔اس
لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ "معاشرتی مسائل کے اثرات معاشرے کے تمام اداروں بشمول
خاندان ،معیشت ،سیاسی ،مذیب اور تعلیمی اداروں پر محیط ہیں"
4.
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نظارے خاندان میں قدیم
طرظ حاکمیت ختم ہو کر جمہوری طرز خاندان نے لے لی ہے۔جس سے بہت سے مسائل پیدا
ہورہے ہیں۔جدید ٹیکنا لوجی کی وجہ سے صرف زراعت میں انسانوں کی جگہ مشینوں نے لے
لی ہے بلکہ صنعتوںکو بھی فروغ ملا ہے۔جہاں ترقی کے ساتھ ساتھ بہت سی سماجی
پیچیدگیوں نے بھی جنم لیا ہے۔ذرائع آمدورفت
نے نہ صرف فا صلوں کوختم کیا ہے بلکہ شہری سہولتوں کے حصول کو بھی ممکن بنایا ہے جس سے انتقال آبادی شہروں میں جرائم کی تعداد
،مکانوں کی قلت جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں بلکہ تعلیم وہنر کی بنیاد پر روز گا ر
لے لئے مقابلے کی فضا پیدا ہوئی جس سے معاشرتی تناؤکو فروغ مل رہا ہے ۔کمزور سیاسی
وحکومتی نظام کی وجہ سے نا انصافی کی فضاپیداکردی ہے۔
5.
مسائل کی وجہ سے مجموعی طور پر ملکی اداروں کی کارکردگی پر
منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔معاشرتی مسائل ،معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور
جب تک ان مسائل کی سنگینی کو نہ سمجھا جائے اور ان کے حل کے لئے بھر پور توجہ نہ
دی جائےجب تک کسی بھی معاشرے میں امن و استحکام کی فضا پیدا نہیں ہوسکتی۔جب
معاشرتی مسائل کو حل نہ کیا جائے تو معاشرتی ارتقاء اور معاشرتی تغیر کے عوامل رک
جاتے ہیں جو مجموعی طور پر معاشروں کو بہت پیچھے لے جاتے ہیں۔
سوال نمبر 2: تحقیق میں نمونہ بندی
اور انٹر ویو کی افادیت پر جامع لکھیں۔
جواب:
1۔نمونہ
بندی کیا ہے؟
عام
طور پر لوگ اپنے مختصر سے تجربے کی بنا پر اردگرد کے لوگوںاور حالات سے متعلق کسی
اہم نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں۔دوسرے لفظوںمیں
وہ چند لوگوں کا نمونہ کے طور پر تجربہ کرتے ہیں اور اس کا اطلاق تمام
لوگوںپر کرتے ہیں۔اسی طرح سے کسی بھی چیز کے حصہ بطور نمونہ پر کھتے ہیں۔اور اس
چیز کا مکمل خواص جان لیتے ہیں مثلاََگندم کے ایک ڈھیر کو جانچنے لےلیئے وہ گندم
کے دانوں کی ایک مٹھی سے پر کھ کر گندم کا اندازہ کر لیتے ہیں کہ اس میں کوئی
ملاوٹ تو نہیں یا اس میں جڑی بوٹیوں کے کتنے فیصد بیج شامل ہیں۔کھانا پکاتے وقت
باورچی دیگ میں سے ایک چمچ نکال کر دیگ کے پکنے کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ان تمام
مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ عام طور پر کسی چیز کے جائز ے لے لئیے اس کا
تھوڑا سا حصہ استعما ل کرتے ہیں۔اس حصے کو نمونہ کہتے ہیں اور اس حصے کو حاصل کرنے
کے طریق کا ر کو نمونہ بندی کا نام دیا جاتا ہے۔
2۔نمونہ
بندی کی تعریف :
کو لنگز کے مطابق چند ارکان کا وہ گروہ ہے جو
کہ تمام جمعیت یا کا ئنات کی نما ئند گی کرتا ہے ۔جمعیت یا کا ئنات سے مراد وہ
تمام افرادوواقعات یا اشیاء ہیں جن میں سے نمونہ اخذکیا جاتا ہے اور کسی بھی کا
ئنات یا جمعیت سے چند ارکان کا نمونہ اخذ کرنے کا طریقہ نمونہ کہلاتا ہے۔علم
عمرانیات میں جس جمعیت سے نمونہ اخذ کیا جاتا ہے عا م طور پر اسے کائنات کہتے ہیں۔
نمونہ
بندی کی ضرورت وافادیت :
نمونہ بندی کی ضرورت مندرذیل وجوہات کی بنا
پر آتی ہیں۔
1۔کائنات کی وسعت:
عام طور پر ہماری معاشرتی تحقیق کی کائنات
اتنی وسیع ہوتی ہے کہ اس پر آسانی سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا اور اگر کا ئنات پر
مکمل ضبط حاصل نہ ہو تو تحقیق کے نتائج اعتمادیت کے حامل نہیں ہوتے لہذا مشکل پر قابو پانے کےلئیے نمونہ بندی کی ضرورت
ہے ۔اس
2۔
تربیت یافتہ عملے کی کمی:
پوری
کائنات کا مطا لعہ کرنے کےلیئے بہت زیادہ تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو
عام حالات میں ممکن نہیں ہوتا۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیئے نمونہ بندی کا سہارہ
لیا جاتاہے۔
3۔
وسائل کی کمی :
عام
طور پر تحقیق کرنے والوں کے پاس وسائل نہیں ہوتے کہ وہ پوری کائنات کا مطالعہ کر
سکیں ۔اس لئے معاشرتی تحقیق میں نمونہ بندی کی جاتی ہے۔
4۔
وقت کی کمی :
پوری
کائنات کے مطالعے کےلیئے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہےاور یہ وقت عام طور پر سالوں
پر محیط ہوتا ہے وقت کی کمی کے پیش ِنظر معاشرتی تحقیق میں نمونہ بندی کی جاتی ہے۔
5۔مالی
وسائل کا صحیح استعمال :
اگر پوری کائنات کا مطا لعہ کرنا مقصود ہو تو
وقت اور دوسرے وسائل کے ساتھ ساتھ بہت سے مالی وسائل کو بھی بروئے کا لانا پڑتاہے۔
لہذاکم
خرچ اور بالا نشین کے اصول پر عمل پیراہونے کےلیئے نمونہ بندی منتحب کر لیا
جاتاہےجیسا کی نمونہ کی تعریف سے ظاہر ہوتا ہے۔یہ پوری کائنات کی نمائندگی کرتاہے
۔لہذا اس سے حاصل شدہ معلومات تما م کائنات کے بارے میں صحیح اطلاع فراہم کرتی
ہیں۔
نمونہ
بندی کی شرائط :
نمونہ
بندی کرتے وقت جن اہم باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں:
1۔نمونہ
کائنات کی درست نمائندگی کرتا ہے۔
2۔نمونے
کا سائز اتنا ہوکہ اس سے تصحیح کی جا سکے یعنی نمونہ بہت چھوٹاہو اور نہ بہت بڑا
ہوبلکہ اتنا ہو کی شمار ہو سکے۔
نمونہ
بندی کی اقسام :
عمرانیات میں عام طور پر دو اقسام کی نمونہ
بندی کی جاتی ہے۔
1۔
سادہ اتفاقی نمونہ بندی
2۔ طبقہ وار نمونہ بندی
2۔
انٹرویو:
(1)انٹرویو
کیا ہے؟
براہ راست معلومات حاصل کرنے کے مقصد سے ملاقات
کو انٹر ویوکہا جاتا ہے۔انٹرویو میں ایک شخص یعنی انٹرویو کرنے والا انٹرویو دہندہ
سے انپے تحقیقی مسئلے سے متعلق تیار کئے گئے سوالات کا جواب حاصل کرتاہے۔انٹرویو
مشا ہدے کے ساتھ ساتھ ایک سوالات بھی کئے جاتے ہیں۔
(2)
تحقیق میں انٹرویو کی افادیت :(بہار2007)
انٹرویو کے چند خصوصی فوائددرج ذیل ہیں :
1۔
انٹر ویو کے ذریعے ہر قسم کے جواب دہندہ سے مطلوبہ مواد حاصل ہو جاتا ہے یعنی ان
پڑھ ،پڑھا لکھا ، دوکاندار ، طالبعلم وغیرہ۔
2۔
انٹرویو میں کئی ذاتی قسم کے سوالات کا بھی جواب مل جا تا ہے جن کا جواب دہندہ
تحریر ی طور پر نہیں دینا چا ہتا ۔
3۔
انٹرویو کے ذریعے تفصیلی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اگر ایک سوال کا جواب تسلی
بخش نہ ہو تو اسی سوال کو ایک دوسرے انداز میں پو چھ کر زیادہ تفصیلی معلومات حاصل
کی جا سکتی ہیں۔
4۔
جواب دہندہ کے انداز گفتگو ،حرکات و سکنات اور چہرے کے تا ثرات سے بعض اوقات ایسا
مواد مل جاتا ہے جس کا کسی اور طریقت سے حصول ممکن نہیں ہوتا۔
5۔
عام طور پر انٹرویو کے سوالا ت پہلے سے تیار شدہ ہو تے ہیں اور ہر جواب دہندہ سے
وہی سوالات ایک ہی انداز در ترتیب سے کیے جاتے ہیں ۔ یہ طریق زیادہ سا ئنسی ہے اور
اس طریق سے حاصل شدہ مواد تحقیق کیلئے زیادہ کارآمد ہو تا ہے۔
(3)
انٹرویو میں رابطہ ذہنی:
سماجی
حالت کو قا بل اعتماد بنا نے کیلئے انٹرویو کنندہ ایک فنی ترکیب کا بھی استعمال کر
تا ہے۔ جس کی تربیت اس کو دی جا تی ہے اور یہ ایسا رابطہ ہے جو دو نوں کے
درمیان قا ئم ہو کر انہیں ایک دوسرے کے
اعتماد میں با ندھتا ہے اس کو ہم رابطہ زہنی کہتے ہیں ۔ انٹرویو میں معلومات کی
اعتما دیت کا انحصار انٹرویو دہندہ کے ساتھ رابطہ ذہنی پر ہوتا ہے ۔ قابل اعتماد
مواد حاصل کرنے کیلئے انٹرویو کنندہ کو انٹرویو دہندہ کے ساتھ رابطہ ذہنی قا ئم
کرنا چاہیے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انٹرویو کنندہ کو چا ہیے کہ
وہ انٹرویو دہندہ کو اپنے اعتماد میں لے اور اس کے ساتھ اس طرح کا قا بل اعتماد
تعلق پیدی کر ے کہ انٹرویو کے دوراں وہ تمام سوالوں کے جواب خوشگوار انداز اور
صحیح طور پر دینے کیلئے آمادہ ہو جائے اور انٹرویو دہندہ اس پر پورا اعتماد اور
یقین رکھے کہ فراہم کردہ معلومات نہ تو اس کیخلاف استعمال کی جا ئیں گی اورنہ ہی
انہیں منظر عام پر لایا جائے گا ۔ اگر دونوں کے درمیان اعتمادیت کی فضا پیدا نہ ہو
سکے تو معلومات میں اعتمادیت کا پہلو نہیں رہتا جو تحقیق کے نتا ئج کو متا ثر کر
تا ہے ۔ رابطہ ذہنی پیدا کرنے کیلئے انٹرویو کنندہ کو چا ہیے کہ وہ انٹرویو دہندہ
پر یہ واضح کر کہ یہ تحقیق قطعاََ اس کیخلاف استعما ل نہیں کی جا ئے گی اور یہ تحقیق کم از کم اور معا شرے کیلئے
مفید ہو۔
(4)رابطہ
ذہنی کیلئے چند اہم اصول /معلوما ت کی اعتمادیت:
1۔
سب سے پہلے جو اب دہندہ کو تحقیقات کے مقصد پر قا ئل کرنا چا ہیے۔
2۔
جواب دہندہ کی طبیعت کیخلاف کو ئی با ت نہ کی جائے۔
3۔
جوا ب دہندہ سے ایسا وقت لیا جائے جس میں وہ فا رغ ہو۔
4۔
جو اب دہندہ کو ما ئل کرنے کیلئے اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے بات کی جائے۔
5۔جواب
دہندہ کی مصروفیات کا بھی خیال رکھا جائے۔
6۔
جواب دہندہ کے مزاج کا بھی بہت عمل دخل ہو تا ہے لہذا اس کے مزاج کا خیال رکھا
جائے۔
7۔
جواب دہندہ سے کو ئی بحث نہ کی جائے۔
8۔
جہاں تک ہو سکے جواب دہندہ کے جواب پر تنقید سے اجتناب کیا جائے۔
ان
ہدایات پر اگر عمل کیا جائے تو انٹرویو کنندہ اور انٹرویو دہندہ کے درمیان قابل
یقین رابطہ ذہنی پیدا ہو سکتا ہے اور امید کی جا سکتی ہے ایسی سماجی صورت میں درست
معلومات حاصل ہوں گی۔
سوال نمبر3:ثقافتی تصورات سے کیا مراد ہے؟ ان تصورات کا روز مرہ زندگی سے کیا
تعلق ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب:
اہم ثقافتی تصورات
ذیل
میں چند اہم ثقافتی تصورات کی تعریف اور مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔
(1)ثقافتی
خاصہ (2)ثقافتی
مرکب (3)ثقافتی
اسلوب (4) ذیلی ثقافت
(5) ثقافت پذیری (6) ثقافتی مماثلت (7)
ثقافتی تغیر
(8) ثقافتی خلاء
(1)ثقافتی
خاصہ:
کسی
بھی معاشرےکی ثقافت کی سب سے چھوٹی اکائی کو ثقافتی خاصہ کہتے ہیں ۔ آسان الفاظ
میں کسی ثقافت کی کوئی سب سے چھقتی چیز یا ردیہ جو خود مختیا ر ہو اور اس کو مزید
تقسیم نہ کیا جا سکے اس کا ثقافتی خاصہ کہلاتی ہے ۔ یہ ثقافتی خا صہ مادی ہو سکتا
ہے اور غیر مادی بھی ۔ پاکستانی ثقافت میں موجود ما دی ثقا فتی خا صے کی مثال دو
پٹہ ، شلوار ، پگڑی وغیرہ شامل ہیں ۔ اسی طرح غیرمادی ثقافتی خاصوں کی مژال گلے
ملنا، شادی کے موقع پر دلہن کو تحفے دینا ، ہماری زبان کا کوئی لفظ وغیرہ شامل
ہیں۔
(2)ثقافتی
مرکب:
جب
بہت سے ثقافتی خاصے کسی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوں تو تب انہیں ثقافتی
مرکب کہا جا تا ہے۔ ثقافتی خا صہ کود سے کسی اہمیت کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک اس
کا دوسرے خاصوں کے ساتھ ربط یا تعلق نہ ہو ۔ ثقافتی مرکب کی مثالوں میں شادی ، نماذ ، لبا س وغیرہ شامل ہیں ۔ اب اگر ہم غور
کریں تو ایک شادی میں بہت ساری رسموں کی صورت میں ثقافتی خاصے نظر وآئیں گے۔ اسی
طر ح نماز کے لئے وضوکرنا ، رکوع و سجود وغیرہ شامل ہیں۔
(3)ثقافتی
اسلوب:
کسی
ثقافت کی اکا ئیوں کے درمیان با ہمی تعلق کو ثقافتی اسلوب کہتے ہیں ۔ یہ اکا ئیوں
کے درمیان ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ جس سے کسی ثقافت کی غالب اور نمایا ں خصوصیات نظر
آتی ہوں ۔ مثلا ََ پاکستان میں شادی کے سلسلے میں منگنی ،مہندی ، نکا ح ، جہیز ،
ولیمہ سب شا دی کے اسلوب ہیں ۔
(4)ثقافت
پذیری :
جب
ایسے دو گروہ یا آفراد آپس میں ملیں جن کی ثقافت مختلف ہو تو چند چیزیں ایسی ہوں
گی جووہ ایک دوسرے سے سیکھیں گے لیکن اس کے با وجود ان میں ان کی اپنی ثقافت کی
پہچان با قی رہے ۔ اس عمل کو ثقافت پذیری کہتے ہیں ۔ پا کستان میں رہتے ہو ئے بھی اس
کے مختلف صوبوں کے لوگو ں کی اپنی ثقافت ہے ۔ اگرچہ پٹھان کچھ چیزیں سندھی ، بلوچی
اور پنجابی تہذیبوں سے سیکھتے ہیں لیکن
پھر بھی ان کی اپنی ایک الگ شناخت بھی ہے۔ یعنی ان کو دیکھنے سے ہی پتہ چل جا تا
ہے کہ یہ کس ذیلی ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔
(5)ثقافتی
مماثلت:
ثقافتی
مماثلت ایسا معاشرتی عمل ہے جس سے مختلف ثقافت رکھنے والے دو یا زائد افراد یا
گروہ دو مختلف تہذیبوں کو قبول کر لیں ۔ اور ایک دوسرے کے طور پر عمل کریں ۔ یہاں
تک کہ ان میں مختلف ثقافتوں کی پہچان با قی نہ رہے۔
امریکہ
ثقافتی مماثلت کی بہترین مثال ہے ۔ اس میں اس کے اصل با شندوں کی تعداد بہت کم ہے
۔ وہاں زیادہ تر آباد کار جرمنی اور کئے دوسرے ممالک سے آئے ہو ئے ہیں ۔ ان سب
آباد کاروں کی ثقافت الگ الگ تھی لیکن اب ان میں اس مخصوص ثقافت کے آثار نظر نہیں
آتے بلکہ ان سب نے مل کر ایک نئی ثقا فت کو جنم دیا ہے جو کہ ان کی موجودہ ثقافت
ہے۔
(6)ثقافتی
تغیر:
انسا
ن میں فطری طور پر تجسس کا مادہ ہے ۔ جس
کی وجہ سے وہ تبدیلی کا خوا ہا ں رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے منصب اور کار
منصب میں بھی تبدیلی واقع ہو تی رہتی ہے۔ یہ تبدیلی معاشرتی اداروں پر بھی
اثرانداز ہو تی ہے ۔ کیوں کہ معاشرے میں معاشرتی ادارے ایک دوسر ے سے ملے ہو ئے
ہیں ۔ اگر ایک ادارے میں تبدیلی آتی ہے تو اس کا اثر دوسرے ادارے پر بھی پڑتا ہے۔
اسے طرح وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی اداروں میں تبدیلیاں رونما ہو تی رہتی ہیں ۔
عمرانیات کی زبان میں ان تبدیلیوں کے لئے معاشرتی تبدیلی یا معا شرتی تغیر کی
اصطلاح استعمال ہو تی ہے۔
(7)
ثقافتی خلاء:
موجودہ
دور میں سا ئنسی ترقی کی وجہ سے تیزی سے آنے والی تبدیلیوں نے بڑی حد تک معا شرتی
مطابقت کا مسلہ پیدا کر دیا ہے ۔ معاشرتی مطابقت کا مسلہ دو طرح سے پیدا ہو تا ہے
۔ ایک تو انسان اس تبدیلی کیساتھ مطابقت پیدا نہیں کر سکتا ۔ دوسرا ثقافت کے مختلف
حصے ایک دوسرے سے مطابقت نہیں کر پا تے اس کی اہم وجہ یہ ہے کی ثقافت کے مختلف حصے
ایک رفتا ر سے تبدیل نہیں ہوتے ۔بعض حصے بڑی تیزی سے ترقی کر جا تے ہیں اور وہ یہ
تقا ضا کر تے ہیں کہ ثقافت ست تعلق رکھنے والے با قی ادارے اور حصے بھی اسی رفتار
سے ترقی کر یں اور تبدیلی کو قبول کر یں ۔ مثلاََ صنعت اور تعلیم کے شعبوں کو لیں
اگر کسی ملک میں صنعت ترقی کر جاتی ہے تو وہ اس با ت کا تقاضا کر تی ہے کہ تعلیمی
میدان میں بھی ترقی ہوتا کہ مجموعی طور پر تبدیلی کو قبول کر تے ہو ئے ترقی کی
جائے ۔
(8)
ذیلی ثقافت:
جیسے
جیسے کسی معا شرے کا سا ئز بڑا ہو تا جا تا ہے ویسے ویسے اس کی پیچیدگی میں بھی
اضا فہ ہو تا جا تا ہے اور اس میں ایسے گروہ پا ئے جاتے ہیں کہ جن کا طرز زندگی ،
عقا ئد خیالات کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہو تے ہیں اور وقت گزرنے کے
ساتھ سا تھ یہی اختلاف ان گرو ہوں کی ایسی ایک الگ شنا خت کا با عث بھی بنتا ہے
کسی بڑے معاشرے میں موجود انہی مختلف ثقافتی خصوصیات رکھنے والے گروہوں کی ثقافت کو ذیلی ثقافت کہتے ہیں ۔
یہ ذیلی ثقا فتیں اپنی اپنی خصو صیا ت کو بر قرار رکھتے ہو ئے بڑی ثقافت کا حصہ ہو
تی ہیں ۔ جیسے پا کستا ن کی قومی ثقافت میں پنجابی ، سندھی ، سرائیکی ، بلوچ،
پٹھان اور کشمیری وغیرہ کی ذیلی ثقافتیں مو جو د ہیں ۔
سوال نمبر4: معاشرتی منصوبہ بندی
کی کامیابی انحصار نگرانی پر منحصر ہے۔وضاحت کریں۔
جواب:
1۔ معاشرتی منصوبہ بندی اور نگرانی
کامیاب منصوبہ بندی کا دارومدار کافی حد تک
نگرانی پر منحصر ہے۔ادارہ چاہے تجارتی ہو یا فلاحی ،سرکاری یا غیر سرکاری اس کی
کامیابی منصوبہ بندی اس کی نگرانی سے بنتی ہے۔دراصل نگرانی ،انتظامیہ کی کامیابی
درست نگرانی پر منحصر ہے۔لیکن درست نگرانی کےلیئے ضروری ہے کہ نگران کا انتخاب ان
کی اہلیت ،ذہنی پختگی ،قیادت کے جذبے اور تربیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے،
2۔تعریف:
کورین ایچ وولف کے مطابق :
"نگران ایک انتظآمی قیادت ہے۔ایسی قیادت
جس کا مقصد سٹاف کے ہر فرد کی صلاحیتوں وعلم کو فروغ دینا اور سٹاف سے کاموں کی
پوری طور پر راہنمائی کرنا ہے۔تاکی ادارے کی طرف سے موکل کو فراہم کردہ سہولتیں
بہتر ہونی چاہیں۔اس طرحنگرانی سٹاف کی تربیتی پروگرام کا ایک لازمی جزو
ہے۔ادارےگروہی اور انفرادی نگرانی دونوں بیک وقت استعما ل کرتے ہیں۔اور دونوں
ادارے کےلیئے منصوبہ بندی میں الگ مقام
رکھتے ہیں۔
نگرانی
کے اصول
کسی بھی ادارے کی کامیابی کے
لیئے وہاں کے اراکین اور انتظامیہ کے درمیان خوشگوار ماحول کا ہونا ضروے
ہے۔اس لیئے انتظامیہ کی پالیسی واضع ہونی چاہئے ۔صرف زبانی اقرار کرنا کافی نہیں
موثر نگرانی کے لیئے چند اصول ضروری ہیں جو مندرذیل ہیں۔
1۔
کارکن اور نگران کا تعلق:
نگران
کا پہلا فرض ہے کہ وہ کارکن کو بتائے کہ کہاںتک نگران اس کی کارکردگی سے مطمئن
ہے۔لیکن یہ اس اقت موئثر ہوگا جب ہر کارکن کو یہ بتایا جائے کہ اس سے کیا توقع کی
جا سکتی ہے۔کارکن کی کارکردگی کا امتحان لینے کے لیئے ضروری ہے کہ اس کو معیار
پرکھا جائے اور ہر کارکن کی کارکردگی کا باقاعدہ ریکاڈ رکھا جائے۔
2۔حقوق
کا تحفظ
عام طور پر جس اصول کی طرف س سے کم توجہ دی جاتی
ہے وہ یہ ہے کہ"جو بھی جس کا حق ہے وہ اس کو فوراََدیا جائے "۔زیادہ تر
نگران اپنے ما تحتوں کی غلطیوں میں ذرا بھی
توقف سے کام نہیں لیتے لیکن جب اس کی کار کردگی اچھی ہوتو اس کی محنت کو
مدنظر رکھ کر اس کی تعریف نہیں کرتے اس سے
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کارکن اپنی کوشش کم کر دیتا ہے۔
3۔مواصلات
نگران کے تیسرے اصول کا تعلق مواصلات کے شعبے
سے ہے۔کارکن کی بدلی کی ایک وجہ پر کیا اثر ہے اور ان سے متفق ہیںیا نہیں۔دوسری
طرف کارکنوں کو موقع تک نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں اور نی
انتظامیہ اپنے فیصلوں کی وجوہات کارکنوں کو بتاضروری سمجھتی ہے۔
4۔انسانی
تعلقات
نگران کے چوتھے اصول کی بنیاد انسانی تعلقات کے
فلسفہ پر مبنی ہے کہ ہر "فرد کی صلاحیتوں کا پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے
"ایک اچھا نگران اس بات کو سمجھتا ہے کہ اس کے ماتخت مختلف افراد ہیں اور اس
لئے ان میں سے اپنی صلاحیت کے لخاظ سے ایک مخصوص کام کرنے کا اہل ہے اور اسی کے
مطابق اس کو اس کا کام کرنے مو قع فراہم کیا جائے۔
نگران کی یہ ذمیداری ہے کہ وہ اپنے ما تحت کو
سمجھے اور ان صلاحتوں کو معلوم کرکے ان کو بڑھائے ۔ایک تربیت یافتہ نگران رفتی رفی
اپنے ماتحتوں کی فنی صلاحتوں کو ابھارے اس لئے خود نگران کی کامیابی کا اندازہ اس
کے ماتحتوں کی کی صلاحتوں اور کار کر دگی سے لگانا چاہئے ۔
5۔
باہمی کاروبار
ایک اچھا نگران اپنے ماتحتوں اور کارکنوں کے
خیالات و جذبات کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور ان سے با خبررہتا ہے ۔لیکن وہ ان کے
جذبات اور احساسات کو اسی وقت صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے ۔ جب اس میں اپنے ما تحتوں کے لیئے ہمدردی
کا جزبہ پایا جاتا ہو۔
کارکن
ایک انسان ہے جس سے زبردستی کام نہیں لیا جا سکتا ۔بلکہ نگران کا غلط رویہ کارکن
کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
6۔ ایک دوسرے کا اخترام
نگران
اور کارکن کا تعلق دراصل قائداور ہیرو کا تعلق ہے۔ایک نگران اسی وقت تک کامیاب رہ
سکتا ہے جبکہ اس کے ما تحت اس کی عزت کرتے ہیں۔جب نگران اور کارکن کے تعلق خراب
ہوجاتے ہیں ۔تو پھر جھگڑے اور ہڑتالیں عام ہو جاتی ہیں۔جس سے ادارے کی کارکردگی
بری طرح متاثر ہوتی ہے ایک اچھے نگران میں انسانی عنصر اور جمہوری اقدار کا پاےا
جانا ضروری ہے یہی اس کی کامیابی کا رازہے ۔
نگران کے اوصاف
1۔ عملی
صلا حیتیں
نگران کی کامیابی کا دارومدار بہت سی باتوں پر
ہوتا ہے۔جن میں اس کا علم ،فنی صلاحیتیں اور شخصیت خاص طور پر اہمیت کی حامل
ہے۔ایک اچھے نگران کے پاس ایسے اختیارات ہونے چاہیئں ۔جن کے زریعے وہ اپنے ماتحت
کو بہتر کارکردگی کی ترغیب دے سکے ۔مثلاَتنخواہوں میں اضافہ کردینا یا سالانہ ترقی
کو پیشگی دینا ۔یہ بات عام فہم ہے کہ زبانی تعریف سے زیاد انعام واکرام کارکردگی
کو بڑھانے میں مئو ثر ہوتے ہیں۔
2۔اختیارات
بالکل اسی طرح نگران کو یہ اختیار بھی ہونا
چاہئے کہ وہ مستحق کو نواز سکے اور زیادتی کرنے والے کو سزا دے سکے تاکہ دوسرےں کے
لیئے عبرت کا کام ہو۔
3۔معیار
نگران کے پاس ایک مستند معیار ہونا چاہئے اور
تمام کارکنوں کے کام کو اسی معیار کی روشنی میں چایئے تاکہ کسی کو شیکایت کا موقع
نی مل سکے اور نہ کسی کے اتھ نا انصافی ہو ،تمام کارکنوں کی کارکردگی کا باقا عدہ
ریکاڈ رکھنا چاہئے ۔تاکہ ان کی کارکردگی کا جائز ہ لیا جاسکے ۔
4۔
باہمی اعتما د
نگران کو انتظامیہ اور کارکنوں دونوں کا اعماد
ہونا چاہئے تاکہ وہ انتظامیہ کو کارکنوں کے ردعمل سے آگاہ کرسکے اور ساتھ ہی
کارکنوں کو انتظامیہ کے فیصلوں اور پالیسی کی وضاحت کرسکے ۔نگران کو غیر جانبداری
اور دور اندیش ہونا چاہئے ۔نگران کی عزت اسکی فنی صلاحتوں اور شخصی خوبیوں کی بنیا
د پر کی جاتی ہے۔اس لیئے ایک اچھے نگران کو ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے ۔جس کی وجہ
سے کارکن اس کی عزت کرنا چھوڑدیں اور اپنے ماتحوں کا اعتما د کھو بیٹھے ۔عزت کا یہ
عنصر طاقت کے زریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔یہ ایک ایسی چیز ہے جو حلوص اور مخنت
سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ نگران کو انتظامی امور میں ماہر ہونا چاہئے ورنہ ماتحت اس
کی عزت نہیں کریں گے۔
5۔دوراندیشی
نگران کو چاہئے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی کو تاہیوں
کے لیئے خود کو بھی ذمہ دار ٹھہرائے اوران کی شیکایتوں کو غیر جانبداری سے کے
سامنے رکھے ۔اس لئے نگران کو فیصلہ بیت سوچ سمجھ کر لینا چاہئے اور اسے ایک پختہ
ذہن کا مالک ہونا چاہئے۔
6۔صلاحیت
نگران
کو تربیت یافتہ ہونا چاہئے اور وقتاََفووقتاَ
اس کورسز اور عملے کے اجلاس میں شریک ہونا چاہئے تاکہ وہ دوسروں کے تجربےوں
سے فائدہ اٹھا سکے اور نئے تصورات ورجحانات اور تکنیکوں سے باخبر رہے ۔موجودہ تیز
رفتار دور میں صرف اسی طرحوہ اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔
7۔خدا
ترس
نگران کو انسانی تعلقات کے امور سے واقف ہونا
چاہئے ۔کامیاب نگرانی کے لیئے انسانی تعلقات کا فن نا گزیرہے۔
8۔
طریقہ کار
نگران کا طریقہ کار اور رویہ لچکدار ہونا چاہئے
تاکہ وہ وقت کا ساتھ دے سکے وہ اپنے ہر ما تحت کی ضروریات اور مشکلات کو سمجھے۔
سوال نمبر 5: مندرجہ ذیل پر نو ٹ لکھیں۔
الف: معاشرتی انتشار سے کیا مراد ہے؟
جواب:
1۔
معا شرتی انتشا ر اور بے نظمی کا مطالعہ:
کسی معا شرے میں انتشار اس وقت نمودار ہو
تا ہے جب روایتی اقدار کا احترام افراد کے دلوں سے اٹھ جا تا ہے اور خارجی اقدار و
اطوار کا غلبہ ہو جا تا ہے۔ روایتی اقدار یا تو بالکل مسمار ہو جا تی ہیں یا اس
قدر کمز ور ہو جا تی ہیں کہ ہو وہ معاشرے کو سہارا دینے کی سکت نہیں رکھتیں ۔
معاشرتی انتشا ر اور بے نظمی کا مفہوم یہ ہے کہ معا شرتی آداب سے ترتیب ، استحکام
اور استقلال کی صفات غائب ہو نے لگتی ہیں ۔ افراد کے کردار میں نا ہموار ی آجا تی
ہے اور لوگ پرانی روش پر چلنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس لئے ما ہرین معا شرتی بے نظمی کی
تشریح کر تے وقت عام لو گو ں کے کردار کی نا ہمواری کو ضرور ذہن میں رکھتے ہیں ۔
تشریح اس طرح کی جا تی ہے کہ ما ہرین سب سے پہلے عام سیر ت و کرادار کی ان شکلوں
کی و ضا حت کر تے ہیں جو مسلے کا آغا ز ہو نے سے پہلے مو جو د تھیں ۔ پھر اس با ت
کا جا ئرہ لیا جا تا ہے کہ افراد کے کردار معا شرتی تبدیلیوں کے زیر اثر کس طر ح
پا رہ پا رہ ہو ئے اور اس کے بعد ان تجا ویز کو زیر غور لا یا جا تا ہے جو حالات
کو ساز گا ر بنا نے میں کا ر آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔
ب: جنگ اور سیا سی بحران میں فرق
جواب
:
1۔
جنگ یا سیا سی بحران:
ہر
معا شرے میں امن و سکون کی بحا لی اور تنظیم بر قرار رکھنے کیلئے سیا سی استحکا م لا زمی ہو تا ہے ۔ اگر
حکومت یا سیاسی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دینے سے قاصر رہیں تو
ملک انتشار کا شکار ہو جا تا ہے اور لا قا نو نیت پھیل جا تی ہے ۔ خو غرض اور بد
کر دار افراد اس مو قع سے فا ئد ہ اٹھانے کی کو شش کرتے ہیں جس سے جر ائم ، بے راہ
روی اور انتشا ر پھیلتا ہے ،۔ اس قسم کے حالات پیدا کرنے میں جنگ کا بھی کا فی د
خل ہے ۔ وہ معا شرے جہاں جنگ چھڑتی ہو اندرونی طور پر وہ انتشار ، بد نظمی اور
مسائل کا شکار ہو جا تے ہیں ہیں چونکہ حکومت کی پو ری تو جہ دشمن
سے مقابلے پر ہو تی ہے۔ ملک کے اندرونی معاملا ت پر تو جہ کم ہو جا تہی ہے۔ اس مو
قع سے مجرم اور ملک دشمن عنا صر نا جا ئز فا ئد ہ اٹھا نے کی کو شش کر تے ہیں ۔
معا شی حالا ت پر بھی جنگ کا بر ا اثر ہو
تا ہے ۔ جنگ کے دوران ملک میں مہنگا ئی بڑھتی ہے۔ اشیا ء کا ملنا دشوار ہو جا تا
ہے ۔ ان حالا ت میں اسمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی ، چو ر با زاری، اشیا ء کی مصنو عی قلت
جیسے مسا ئل پیدا ہو جا تے ہیں ۔ جنگ کے خاتمے پر بھی کچھ مسا ئل پیدا ہو جا تے
ہیں ۔ مثلا ََ جنگ میں مرد کا م آجا تے ہیں ، عو رتیں اور بچے بے سہا را رہ جا تے
ہیں جس سے مزید کئی مسا ئل جنم لیتے ہیں۔
Comments
Post a Comment