Urdu 1, 363 FA aut 2021 assignment no 1

 


کورس

اردو لازمی بک ون

سطح

انٹر میڈیٹ

کورس کوڈ

363

سمسٹر

خزاں 2021

اسا ئنمنٹ نمبر

1

سبجیکٹ ٹو ٹل اسا ئنمنٹ

2

 

امتحانی مشق نمبر  1

سوا ل نمبر 1:۔

            مند رجہ ذیل اقتبا سات کی تشر یح کریں مضمون  کا عنوان اور مصنف کا نام بھی لکھیں۔

(الف)

ادب کے متعلق تنقیدی نقطہ نظر کی  تبدیلی ۔۔۔۔۔۔و جہ افتحار نہیں بن سکتا۔

جواب:

            مصنف  کا نام:                             ڈاکٹر سید عبد اللہ

                سبق کا عنوان:                                           ادب میں جذ بے کا مقام

تشریح:۔

            مصنف   نے اس پیرا گراف میں ادب کے متعلق تنقیدی نقطہ  نظر کی  تبدیلی کی  ضرورت کا اظہار کیا ہے۔اچھا ادب تنقیدی شعور کے بغیر  پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔مصنف کو اس بات کا احساس ہے کہ عمو ما ہمارے ملک کے لوگ  لکیر کے فقیر ہیں کسی بھی ملک کا ادب  وہا ں کے معاشرے کی روایات کی عکاسی کرتا ہے۔معاشرے میں لوگوں کا رہن سہن حالات کی تبدیلیوں کے زیر اثر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ادبی تنقید کیلئے ادبی ذوق اور تعلیم کی نشو ونما ضروری ہے  اچھے ادیب اور اچھے قاری تعلیم و تربیت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتے۔ اگر پڑھنے سمجھنے والے لوگ عوامی سطح کے شعور و روا یات سے تعلق اور رابطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ علمی ادبی تنقیدی شعور  میں اضافہ کریں تو اعلیٰ اور معیاری ادب کی تخلیق ممکن ہو سکتی ہے۔مصنف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اچھے اور پڑھے لکھے قارئین  ہی اچھے ادب کی  تخلیق کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح اچھے ادیب اپنی قوم کو اقوام عالم میں نمایاں مقام دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مصنف کے خیال میں یہ مقصد اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب اردو ادب میں تعمیری تنقیدی روایات پیدا ہو ں جو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے اندر جدت اور نیا پن رکھتی ہوں اور ان کا مقصد انسانوں کے انفرادی  اور اجتماعی مسائل حل کرکے ان میں یقین و اعتماد پیدا کرتا ہو۔ اگر ادب  میں صرف المیوں اور تلخیوں کا ذکر کیا جائے تو ایسا ادب عظیم ادب کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔

 

(ب)

1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں نے ۔۔۔۔۔۔۔ بنگال میں شامل کرا دیا۔

جواب:

                        سبق کا عنوان:                           نظریہ پاکستان

                                مصنف کا نام؛                             غلام مصطفے ٰخان

تشریح

            اس سبق میں مصنف نے نظریہ پاکستان کا پس منظر واضح کیا ہے برصغیر کے لوگوں نے انگریزوں کی غلامی سے نجات کی کئی بار کوشش کی ۔ 1857ء کی جنگ آزادی انگریز ی اقتدار کے خاتمے کا ایک بہت بڑا قدام تھا۔ بو جو ہ یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ اس نازک وقت میں سر سید احمد خان آگے بڑھے اور مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ مفا ہمانہ رویہ اختیار کرنے اور تعلیم پر توجہ دینے کی ترغیب دی۔ اسی اثناء میں ہندوؤں نے اپنی ایک سیاسی جماعت کانگر س قائم کرلی اور ہند وؤں کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ بھی کرنے لگے۔ انگریزوں سے زیادہ قریب ہونے کی بنا پر سرکاری ملازمتوں پر بھی ہندو قابض ہونے لگے۔ اور دوسری طرف اردو زبان کے خلاف بھی محاذ قائم کردیا ان حالات میں سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو کانگرس سے دور رہنے کی ہدایت کی۔ جبکہ مولانہ قاسم نا ناتوی نے دیو بند میں مسلمانوں کی آیا۔ ہندو ؤ ں کی طرف سے 1911ء میں تنسیخ بنگال کا عمل بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ایک بہت بڑی سازش تھی۔

 

سوالنمبر:2

            عبادت بریلوی کے مضمون "ادب اور تہذیبی روایات" کا خلا صہ لکھیں۔

جواب:

            اس مضمون  میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ادب اور اعلیٰ تہذیبی روایات کے گہرے اور فطری تعلق کو واضح کیا ہے ۔ ایسی روایات اور  اقدار نہ صرف کسی قوم کے لئے سرمایہ افتخار ہوتی ہیں بلکہ قوم کر رہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہیں۔ کسی بھی قوم کا ادب اس قوم کی اعلیٰ تہذیبی روایات کو آیندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔

معاشروں کی اپنی تہذیبی روایات ہوتی ہیں اور ہر معاشرے کو اپنی روحانی ، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور اخلاقی اقدار و روایات بہت عزیز ہوتی ہیں۔ ادب کا تعلق چونکہ انسانی زندگی سے ہے۔ اس لئے ہر قوم کا ادب ان معاشرتی  اقدار و روایات کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اور نسل نو تک ان کی با خفا ظت منتقلی کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ قوم کی اقدار وروایات کا رشتہ اپنے ماضی سے جڑا ہوتا ہے۔ کیو نکہ حال سے مستقبل کی طرف بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ ماضی کی زندہ روایات سے قوت اور نمو حاصل کی جائے اور ان سے مستقبل کی شاندار تعمیر کا جذبہ اور شعور حاصل کیا جائے۔ماضی کی اقدار وروایات یہاں افراد معاشرہ کی رہنمائی کرتی ہیں ۔ وہاں اعلیٰ ادب کے فروغ اور ارتقا ء میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتی  ہیں۔ ان میں احتیاط کا شعور پیدا کرتی ہیں اور ان کو گمراہ نہیں ہونے دیتیں۔

 

سوال نمبر:3

            مندرجہ ذیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں۔

شعر:      کوئی میرے دل سے پو چھے                 تیرے  تیر نیم کش کو ۔۔۔۔۔۔۔۔

تشریح:

            غالب محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یہ جو میرے دل میں چھبن سی ہو تی ہے، داصل یہ تیرے تیر نیم کش کی کرامت ہے۔ یہ میرے دل میں اس طرح پیوست ہو گیا ہے کہ آدھا ایک طرف ہے اور آدھا دوسری طرف، یعنی دل میں اٹک گیا ہے اور تو  اگر اسے پوری طرح کھینچ کر مارتا،تو دل کا قصہ ہی تمام ہو جاتا ۔یہ جو اس میں چھبن ہو رہی ہے اور اس چھبن کی جو لذت ہے۔ وہ تیر کے آر پار ہونے کی صورت میں کہاں ہوتی؟

 

شعر:      یہ کہاں کی دوستی ہے کہ  بنے ہیںدوست ناصح                              کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

تشریح:

            غالب پوچھتے ہیں کہ یہ کہاں کی اور کیسی دوستی ہے کہ میرے دوست مجھے نصیحتیں کرتے ہیں۔ اگر وہ حقیقتاََ میرے دوست ہوتے ،تو نصیحتوں کی بجائے میرے اصل دکھ، درد،اور غم کا علاج کرتے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ عاشق پر نصیحتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی بجائے بہتر ہے اس کے ساتھ غم گساری کی جائے اور اس کے دکھوں کا مداوا کیا جائے۔

 

شعر:      کیوں کس سے میں کر  کیا ہے ، شب غم بری بلا ہے              مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

تشریح:

                غالب فرماتے ہیں کہ میں کسی سے جاکر کہوں کہ ہجر کی رات کا غم کیا ہوتا ہے؟ یہ تو بہت ہی بڑی مصیبت ہے، اس میں انسان بار بار موت جیسی تکلیف اٹھاتا ہے غالب کہتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ شب غم کی اس بے پناہ اذیت کی نسبت مجھے موت آجا تی ،تا کہ  یک بارگی میرا خاتمہ ہو جاتا۔ یہ راتوں کا غم تو مرنے سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے۔

 

شعر:      ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا             نہ کبھی جنازہ اٹھتا ، نہ کہیں مزار ہوتا

تشریح:

غالب فرماتے ہیں کہ جب تک زندہ ہے، عشق کی وجہ سے بدنام وذلیل و خوار رہے ،لیکن افسوس کہ مرنے کے بعد بھی رسوا ئیوں نے پیچھا  نہ چھوڑا میں دریا میں غرق ہو جاتا کم از کم کوئی میرا جنازہ تو نہ اٹھاتا اور دیکھنے والے یہ نہ پو چھتے کہ یہ کس کا جنازہ ہے اور میری قبر دیکھ کر نہ پو چھتے کہ یہ کس کی قبر ہے؟ جنازے اور قبر نے بھی میری رسوائی کو آشکار کیا ہے۔ ڈوبنے سے میری موت خاموشی سے ہو جاتی اور میری، رسوائی اور بے کسی کی  کسی  کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔

سوال نمبر: 4

            " مجا ذ مرسل کی تعریف" اور چار مثالیں  بھی دیں۔

جواب:۔

            مجاز مُرسل

مجاز مرسل اور  استعارے کی تعریف میں عام طور پر طلبہ مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں، اس لیے یہاں دونوں کی تعریفیں درج کرتے ہیں۔

جب کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی اور غیر حقیقی معنوں میں اس طرح استعمال  کیا جائے کہ اس لفظ کے حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق ہو، تو وہ استعارہ کہلاتا ہے۔

جب کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی اور غیر حقیقی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو، تو اسے مجاز مرسل کہتے ہیں۔

مجاز مرسل کی دودرجن صورتیں بنتی ہیں، جن میں سے اہم :   جزو سے کل اور  کل سے جزو، سبب سے سبب اور  سبب سے مسبب یا ظرف بول کر مظروف مراد لینا یا مظروف بول کر ظرف مراد لینا جائے۔

مثالیں:

 نبض پر ہاتھ رکھنا۔ حالاں کہ تین انگلیاں رکھی جاتی ہیں اور مراد کل، یعنی ہاتھ ہوتا ہے۔ الحمد للہ کہہ کر مراد سورۃ فاتحہ لینا ۔۔جزو سے کل کی مثال ہے۔

 

سوال نمبر:5

            "  سیاست  " کے مو ضوع پر دو دوستوں کے درمیان مکالمہ لکھیں۔

جواب:  

                        مکالمہ

شاہد:        اسلام علیکم اسد بھائی کہاں کی تیاری ہے؟

اسد:        وعلیکم ا سلام شاہد بھائی! آج شام ہماری پارٹی کا جلسہ ہے۔ دوستوں کے ساتھ وہاں جانے کا پرو گرام ہے۔

شاہد:        اسد بھائی! آپ پڑھے لکھے ہیں ۔اب تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے۔ سیاستدا نوں نے ہمارے ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔یہ خود غرض لوگ صرف مال بنانا جانتے ہیں۔

اسد:        نہیں شاہد بھائی! ہماری پارٹی نے تو سابقہ دور میں بہت کام کیا ہے۔ ہر طرف اچھی سڑکیں نظر آتی ہیں۔

شاہد:        اسد بھائی! بہت سے لوگ اس دور حکومت کی تعریف کرتے ہیں میں خود ان کا بڑا فین ہوں۔

شاہد:        ہاں بھائی! جان جن لوگوں نے بہت کھا یا ہے یا جنہوں نے ناجائز مال بنایا ہے وہ بہت تعریف کرتے ہیں آپ خود کو ہی دیکھیں۔ پرانی سی    مو ٹر سائیکل تھی آپ کے پاس اب شاندار گاڑی میں گھو متے ہیں۔ شاندار بنگلہ الگ ہے یہ اسی ملک کے غریبوں کا مال ہے۔ تعریفیں تو آپ کریں گے۔

اسد:        شاہد بھائی! شر مندہ کرتے ہیں آپ تو بہت محنت کی ہےمیں نے پارٹی کےلئے۔ اچھا اجازت دیں۔

شاہد:        خدا حافظ

 

سوال نمبر:6

            یوم دفاع کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب کی رودادلکھیں۔

جواب:

                        یوم دفاع کی تقریب کا رو داد

گز شتہ  سالوں کی طرح اس سال بھی کالج میں 6 ستمبر کو یوم دفاع کےسلسلے میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ 6 ستمبر 1965ء ہماری عسکری تاریخ کااہم ترین دن ہے۔ یہ دن ہمیں جنگ ستمبر کے ان دنوں کی یاد دلاتا ہے۔ جب پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج نے بھارتی جارجیت کے خلاف اپنی آزادی اور قومی وقار کا دفاع کیا۔ اسی دن کی مناسبت سے کالج کے وسیع سبزہ زار میں نہایت پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت بحضور رسالت مآب سے ہوا۔ اس کے بعد چند طلباء نے خوبصورت ملی نغمے پیش کئے۔بعدازاں تقریب کے مہمان خصوصی جناب ڈپٹی کمشنر صاحب نے نہایت مؤثر خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ جنگ ستمبر میں پاکستانی شہریوں نے اپنی مسلح افواج کے ساتھ بے  مثال یکجہتی  کا مظاہرہ کیا۔ اور اپنے سے دس گنا بڑی طاقت کو ذلت امیز شکست سے دوچار کیا۔ اس روز پوری پاکستانی قوم اور فوج کے افسروں اور جوانوں محنت ،جانشانی سے قوم کو نا قابل تخیر بنا سکتے ہیں۔ تقریب کے آخر میں کالج بینڈ نے جنگی ترانوں کی خوبصورت دھنوں سے سے دلفر یب سماں باندھ دیا۔ا ور   شر کا نے 6 ستمبر کا جذ بہ اپنے دلوں میں مو جزن پایا۔ جناب پرنسپل صاحب کے اختتامی کلمات اور اظہار لشکر کے ساتھ ہی اس پروقار تقریب کا اختتام ہوا۔

 

سوال نمبر: 7

            مختصر جواب دیں۔

(الف)              "حمد" کے اصطلاحی معنی کیاہیں؟

جواب:

                حمد کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا اصطلاح میں حمد ایسی نظم کو کہا جاتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور قوت و عظمت  کا اعتراف کیا گیا ہو۔ حمد ایک قدیم صنف سخن ہے۔یہ اردو زبان کے ساتھ پروان چڑھی ہے۔ محسن کا کوردی ، امیر مینائی، ظفر علی خان اور ماہر القادری نے نعت میں نام پیدا کیا ہے۔

(ب)                 "مثنو ی "  کا لغو ی مطلب کیا ہے؟

جواب:

            "مثنوی " کا لغوی معنی ہے دو تہوں والا۔ مثنوی میں چونکہ ہر دو فقرے ہم قافیہ ہو تے ہیں اس لئے اسے مثنوی کہا جاتا ہے۔

(ج)                  "من مطلع" سے کیا مراد ہے؟

جواب:

              کسی غزل میں دوسرے مطلع کو من مطلع کہتے ہیں۔

(د)                   "مقطع " سے کہتے ہیں؟

جواب:

            غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔

 

سوال نمبر: 8

 سید ضمیر جعفری کی نظر  " کھڑ اذنر " کا خلاصہ لکھیں۔

جواب:              

                        خلاصہ نظم  "کھڑا ڈنر"

 سیدا حمد جعفری  نے اپنی اس نظم "کھڑا ڈنر " میں جدید دور کی ایک قباحت کو موضوع سخن بنایا ہے۔ اہل یورپ کی دیکھا دیکھی  ہمارے ہاں بھی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں میں کھڑے ہو کر کھا نے یعنی  بوفے کا رواج ہو چلا ہے ۔کھڑا ڈنر کرنے والے ندید وں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کبھی اس میز سے بریانی اور کھبی اس میز سے مچھلی  اٹھائی گویا   شتر ب مہا ر کی طرح ہر جگہ منہ مارتے پھرتے ہیں۔اور وضح داری اور  رکھ رکھاؤ کو ایک طرف رکھ کر میزوں پر دھاوا بول دیتے ہیں۔پھر کھانے کا انداز ایسا ہے گویا ادھار کا کھا رہے ہوں۔اسی طرح شاعر کھڑا ڈنر کا  ایک اور منظر پیش کرتے ہو ئے کہتا ہے۔کہ ایک حضرت نے اپنی پلیٹ میں سارے کوفتے سمیٹ لیئے ہیں۔اس کے با وجود نظریں دوسرے  کھانوں پر جمی ہیں اور میری طرح جس کسی کو جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹتا ہیں آتا وہ خالی پلیٹ لئے کھڑا ہے۔اسی اثنا ء میں ایک میز پر مجھے مرغ کی ایک ٹانگ نظر پڑی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ میرا ہاتھ اس تک پہنچتا۔ ایک حریف وہ بھی لے اڑا۔ دو بارہ ایک کباب اٹھانے  کو لپکا تو  پھر بھی ناکام رہا۔ یہ کیسی ضیافت  ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔

اسی کھڑےڈنر میں   ایک  طرف عورتیں  بھی موجود ہیں۔ وہ کیسی ہی مصروف ہوں ان کی گفتگو برا بر جاری رہتی ہے۔اب بھی وہ کھانے کی میز کے گرد جمع ہیں اور کھانے کے ساتھ ساتھ لگا تار بولے چلی جا رہی ہیں۔ شاعر چاہتا ہے کہ خواتین ذرا الگ ہوں تو نان کا کوئی ٹکڑا اس کے بھی ہاتھ لگے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مرغ ، ماہی کے ختم ہونے تک یہ نو بت نہیں آئے گی۔




Comments