کورس |
اردو بک ٹو |
سطح |
انٹر میڈیٹ |
کورس کوڈ |
364 |
سمسٹر |
خزاں 2021 |
اسا ئنمنٹ نمبر |
1 |
سبجیکٹ ٹوٹل اسائنمنٹ |
2 |
امتحانی مشق نمبر
1
سوال نمبر:1 مندر جہ ذیل اقتباسات کی تشریح کریں مضمون
کا عنوان
اور مصنف کا نام بھی لکھیں۔
(الف) ایک شا ہ ساحب عالم ذوق میں ۔۔۔۔۔۔۔ رات جاگتے رہنے کا
شکوہ ہو رہا ہے؟
جواب: سبق کا عنوان :
مچھر مسنف
کانام: خواجہ حسن نظامی
تشر یح: اس
اقتباس میں مصنف نے ایک شاہ صاحب کے حوالے سے مچھر کی تعریف بیان کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ مچھر انسان کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا بلکہ رات کے سہانے وقت میں
انسانوں کو بیدار کرنے آتا ہے کہ وہ بھی اٹھیں اور اللہ کی عبادت کریں۔ شاہ صاحب
کے بقول مچھر دن بھر کو نے کھد روں میں چھپا رہتا ہے۔ وہ رات کو باہر نکلتا ہے اور یہی اللہ کی عبادت
کا وقت ہے۔ تنہائی کے اس سہانے وقت میں
مچھر اپنی مخصوص آواز میں اللہ کی حمد کے
ترانےگاتا ہے۔ اور غفلت کی نیند میں پڑے
انسانوں کو جگاتا ہے کہ وہ بھی بیدار ہوں
اور اللہ کی حمدو ثنا بیان کریں اور اس کا شکر بجا لائیں۔ اور زندگی کی اس مختصر
مہلت کو سونے میں ضائع نہ کریں۔ لیکن مچھر
کے بار بار کے جتن کے باوجود جب انسان بیدار نہیں ہوتا تو تنگ آکر مچھر ہاتھوں اور
چہرے پر کاٹتا ہے لیکن انسان اس قدر غفلت کی نیند سوتا ہے کہ ہاتھ مار کر مچھر کو
بھگاتا ہے اور کروٹ بدل کر پھر سو جاتا ہے۔ اور عبادت کا وقت گزار کر جب صبح کو
بیدار ہوتا ہے تو شکوہ کرتا ہے کہ مچھر نے رات بھر سونے نہ دیا۔ جو کہ مچھر پر سرا
سر الزام ہے۔
(ب) پا کستان کے قیام سے کم وبیش --------- کی
تا سیس وتشکیل کی دعوت دی:
جواب: سبق کاعنوان: : وطن ارو ملت مصنف
کا نام : مولا نا صلاح الدین احمد
اس اقتباس میں مصنف نے تحریک کا پس منظر بیا ن کیا ہے اور
بتا یاہے کہ مصور پا کستان علامہ اقبال نے
جذبات کی بجائےفکرکو اپنا
رہنمابنایاتوانہوں نے لاز م جانا کہ
برصغیرکے مسلمانوں کے لئے وطن کاقیام ضروری ہے ۔علامہ اقبا ل مسلسل غورو فکر کے
بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ شمال
مغربی ہندو ستان میں ایک اسلامی وطن کا قیام ضروری بھی ہے
اور ممکن بھی ہے چنا نچہ انہوں نے اپنی
شاعری سے اسلامیان ہندمیں ایک الگ
وطن کے حصول کے لئے ولولہ تازہ پیداکیا۔ اورایک اسلامی وطن کے قیام کا جو خواب
ٹیپو سلطان ،سلطان عبدالحمید، جمال الدین افغانی اروخود علامہ اقبال نے دیکھاتھا۔انہوں نے اس کی تعبیرکے لئے اپنے تاریخی
خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کو برصغیرکے شمال مغربی حصے میں ایک قومی وطن کے قیام کی جدو جہد پر آمادہ کیا۔اور آخر
کارایک مختصر مدت میں قائداعظم کی قیادت میں
مسلمانوں نے اس خواب کو حقیقت میں
بدل دیا۔
سوال2۔ مرزافر حت اللہ بیگ کے مضمون"ایک وصیت کی تعمیل"کا خلاصہ لکھیں ۔
جواب:خلاصہ سبق
"ایک وصیت کی تعمیل"
(خزاں
2012ء)
ایک وصیت کی تعمیل ،مرزافرحت اللہ بیگ کا لکھاہوا مضمون ہے ۔ اس میں انہو ں نے عثمانیہ یو نیورسٹی حیددآباد
دکن اردو کے مشہور و معروف استاد مو
لوی وحیدالدین سلیم کا خاکہ نہایت دلچسپ
پیرائے میں بیا ن کیا ہے ۔ مصنف کہتے ہے کہ وہ کافی عرصے سے حیدر آبادمیں تھے ، مگر انہیں مولوی
وحیددالدین سلیم سے ملنے کا اتفاق
ان کی زندگی کے آخری دنوں میں ہوا ۔ان سے
پہلی ملاقات حیدر آباد کے اسٹیشن پر اس وقت
ہوئی ،جب وہ اور مصنف مولوی عبدالحق کی دعوت پر اورنگ آباد جارہے تھے ۔ وہیں مولوی وحیدالدین نے نذیر احمد کی قسمت پر رشک کرتے ہوئے کہاکہ کاش ان کا بھی
کوئی شاگرد مصنف جیسا ہوتا ، جو ان کی
وفات کے بعد ان پر مضمون لکھتا ۔ یہ
سن کر
مصنف نے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا ، بہ شرطے کے مو لوی صاحب مر کے دکھائیں۔
مولوی صاحب ایک سال کےاندرہی وفات
پاگئے اور مصنف نے ان کی وصیت
کی تعمیل میں یہ مضمون لکھا۔ اسٹیشن کی
ملاقات کے بعد مصنف ریل کےسفر
کا حال بیان کرتے ہیں۔ جب مولوی صاحب مسلسل بولتے رہے ۔انہوں اپنے
حالات زندگی بتائے ، علمی کارنامے بیان کیے ،شعر وشاعری کی دوسروں کی برائیاں کی یہاں تک کہ صبح ہوگئی ۔اس دوران
مصنف نے مشورہ دیا کہ وہ شاعری کے جو ہر
کو ضائع نہ ہو نے دے۔مصنف کے کہنے کے مطابق مولوی صاحب کے اندر ظرافت کامادہ تھا،
تا ہم زمانے کی ٹھوکریں کھا کر ان کے لہجے میں کچھ تلخی آگئی تھی ۔ شایداسی وجہ سے
کوئی بھی دلی طور پر ان کو پسندنہیں کر تاتھا۔ مصنف کہتے ہیں کہ جب بھی گفتگو کے دوران بڑے لوگوں کا ذکرآیا
تو کہنے لگےکہ وہ گدھے ہیں ۔ یوں بے نقط سنا کر وہ اپنے دل کو ٹھنڈا کر لیتے تھے ۔ زمانے کی
تلخیوں نے مو لوی صاحب کوکنجوس بھی بنا دیا تھا ۔وہ جتناکماتے اس میں سے
بہت کم خرچ کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ
مرےتو بہت سی جمع پونجی دوسروں کے کام آئی ۔مصنف کہتے ہیں کہ اگلے دن دو بجےوہ سب
لوگ اورنگ آباد پہنچ گئے ، تاہم راستے بھر کی بے آرامی کی بہ دولت مولوی صاحب کو
بخارہوگیا ۔دوسرے دن طبیعت خراب ہونے کے باوجود انہوں نے خوب بن سنور کر لیکچردیا۔ مولوی صاحب کے طرزادا نے سماں باندھ دیا۔ ان کے پڑھنے کے
اندازن میں بہت روانی تھی ۔دوہزا ر کا مجمع تھاتقریر نہیں ایک برقی روتھی کہ دل ودماغ پر اثرکررہی تھی کچھ یہی وجہ ہے کہ سر سید مرحوم اپنے آخری
زمانے میں اپنے اکثر لیکچر انہی سے پڑھو ایا کرتے تھے۔ مصنف نے اورنگ آباد میں پیش
آنے والا ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا ہے۔جس کے نتیجے میں لوگوں نے مولوی وحیدالدین
سے یہ پو چھنا شروع کر دیا کہ کیا مولوی
کریم الدین آپ کے والد تھے؟ اس پر مولوی صاحب بہت بپھرےاور انہوں نے اسے مرزا فرحت اللہ کی شرارت جانا۔
مولوی صاحب ایک بڑے سے گھر میں اکیلے رہتے تھے۔گھر میں
سامان بھی کم رکھا تھا۔چائے پینا اور دوسروں کو پلانا اُن کا پسند یدہ مشغلہ تھا۔
کھانے کے بارے میں پو چھو، تو مولوی صاحب کہتے "نہیں بھئی! میں نے تو مدتوں
سے کھانا چھوڑ دیا ہے، صرف چائے پرگززان ہے"۔ تاہم مصنف کے بقول مصنف صاحب کھاتے تھے اور خوب کھاتے تھے۔
ہاں! یہ اور بات ہے کہ گھر کا پکا نہیں کھاتے تھے۔شکر خورے تھے اور یار، دوست،
شاگرد وغیرہ اُن کو مٹھائی لا کر پیش کرتے
رہتے۔مولوی صا حب گھر کے بیشتر کام خود کرتے تھے۔ان میں سے ایک اپنی بان کی
چارپائی کی ادوان کھینچنا تھا، جسے وہ ایسا کھینچتے کہ ہاتھ مارو، تو طبلے کی آوازآئے۔مصنف
کے مطابق مولوی صاحب کو اصطلاحات بنانے میں خوب مہارت حاصل تھی کہ اصطلاحات بنانے
میں مولوی وحیدالدین اپنا جواب نہیں رکھتے۔مولوی صاحب کی وفات کو مصنف اردو زبان کا ایک ستون گر جانے کے مترادف سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق
اُن کے بعد اُن جیسا پرو فیسر ملنا نا
ممکن ہے۔
سوال نمبر:3 مندرجہ ذیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر
کا نام بھی لکھیں۔
کسی
کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے
مجھے گزر گئی جرس گل،اداس کر کے
مجھے
میں
تیرے درد کی طغیانیو ں میں ڈوب گیا پُکارتے
رہے تارے اُ بھر اُ بھر کے مجھے
جواب: شاعر کا
نام: ناصر کاظمی
غزل " ناصر
کاظمی"
شعر نمبر 1: کسی
کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے
مجھے
گزر
گئی جرس گل،اداس کر کے مجھے
لغت: آنکھ بھر کے
دیکھنا (مکمل توجہ سے دیکھنا) جرس گل (پھو
لوں کے قافلے گھنٹی مراد ہےپھول کھلنے کی آواز یا چٹک)
تشریح:
ناصر کاظمی کے ہاں اداسی اور ویرانی کا احساس قدم قدم پر
ملتا ہے۔ اپنی غزل کےاس مطلع میں وہ یہی رویہ ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ بہار کا موسم
جہاں ایک طرف مسرت اورتازگی کا احساس لاتا ہے،وہاں جنوں و دیوانگی کی کیفیت میں
مبتلا عاشق جاں سوز کے لئے نئی تڑپ اور کسک کا اعلان نامہ بھی ہوتا ہے۔ سودائی لوگ
دیوانہ وار بہار کی حشر سامانیوں کا سامنا کرتے ہیں، تو ان کی وحشت کچھ اور بھی
بڑھ جاتی ہے۔شعر جو پہلے ہی درد مندی میں کئی ساری حیاتی اپنی کی مثال بن کر جی رہا تھا۔بہار آئی تو اس کی اداسیوں اور بے قراریوں میں مزید اضافہ کر گئی۔ وہ اندر کی بے چینی اور
کرب کی شدت کو کم کرنے کی غرض سے باغ کی جانب
چل دیا ، مگر باغ کی کسی کلی نے بھی اس کی
طرف توجہ اور پیار سے نگاہ نہیں کی۔ایسے میں شاعر کو یوں لگا جیسے پھول جو شگفتگی
کا استعارہ ہے اور کلی جو تازگی کی علامت ہے، شاعر کےلئے افسردگی بڑھانے
کا سبب بن گئے۔
شعر نمبر:2 میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستان میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
لغت: شبستان
(رات ٹھہرنے کی جگہ)
تشریح:
اس
شعر میں شاعر نے محبوب کی یاد میں کھو ئے رہنے کو حوالہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ
اپنے محبوب کی کسی سہانی یاد کی خواب گاہ میں،وصال کے لطف سے سر شاری کے عالم میں
تھا کہ اچانک اُ س کے حسین خواب کا جادو
ٹوٹ گیا۔وقت کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا اور صبح ہو گئی۔صبح دم
جب قافلے والو ں نے اُسے بیدار کردیا ، تو اُس کا شبستان
خیال چکنا چور ہو گیا۔وہ یادوں میں کھویا رہنا چاہتا تھا ، کیو نکہ ان یادوں کے دم
قدم سے اُس کی زندگی میں رونق باقی تھی۔ گویا ان یادوں، وعدوں اور اُمیدوں کے
سہارے زندگی بسر کرنا ۔ حال کو حسین تر
بنا دیتا ہے۔ خواب حسین ہو، تو بیدار ہونا کسے اچھا لگتا ہے۔شبنم رومانی کا شعر
ہے۔
نجا
نے کون دبے پا ؤ ں خواب میں آیا
کھلی جو آنکھ تو خو شبو سے بس رہا تھا
مکا ں
سوال نمبر:4 جوش ملیح آبادی کی نظم " البیلی صبح " کا خلا صہ لکھیں۔
خلا صہ
(خزاں
2011 ء) ( بہار 2015ء) ( بہار 2017 ء)
جوش ملیح آبادی نے
اس نظم میں صبح کے حسین منظر کا نقشہ بڑے دل فریب انداز میں کھینچا ہے۔ صبح کے وقت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلتی ہےاور پر ندوں کے چہکنے کی آوازوں سے ایک عجیب سرور پیدا ہوتا ہے۔پھولو ں کی مہک سے پوری ہوا معطر
ہوتی ہے۔ آسما ں پر رات بھر چمکنے والے
ستارے کی آنکھ جھپک رہی ہے اور وہ ٹمٹما
رہا ہے۔ شبنم کا موتی بیلے کی کلی پر ایک
ادا کے ساتھ پڑا ہوا ہے۔صحرا سے آنے والی
ہوائیں انسان کے چہرے کی سرخی بڑھا رہی ہیں۔اور پھولوں کے سرخ لباس کا حسن
بھی قابل دید ہے۔جب یہ کلیاں ہوا سے ہلتی ہیں، تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی حسینہ اپنے گیلے
دوپٹے کو ہوا میں سکھا رہی ہے۔ چاند کے ارد گردتارے اس طرحچھپ رہے ہیں،
جیسے کوئی دلہن اپنی پیشانی اور مانگ سےغازہ
اتار رہی ہو۔
سوال نمبر: 5 پرانے
نوٹ کی آپ بیتی لکھیں۔
جواب: "ایک پرانے نوٹ کی آپ بیتی"
میں
ایک پھٹا پرانا نوٹ ہوں میری مالیت پچاس روپے ہے۔اس وقت میں ایک مزدور کی جیب میں پڑا
ہوں۔اس نے دوپہر کے کھانے کیلئے مجھے سنبھال رکھا
ہے کئی جگہ سے میرا رنگ ماند پڑ چکا ہے۔ایک دو جگہ سےپھٹ بھی چکا ہوں میرے ایک کونے کا ذرا سا حصہغائب بھی ہو
چکا ہے۔ میرے کاغذ میں سے بو سیدگی کی بو بھی آنے لگی ہے
لیکن میں ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا کبھی میں بہت نیا اور شاندار تھامیری یہ حالت ماہ سال کے استعمال اور مختلف ہاتھو ں کی گردش کی وجہ سے ہوئی ہے
آئیے میں آپ کو اپنی داستان حیات سناتا
ہوں۔پہلے میرا کا غذ گور نمنٹ کی ایک فیکٹری میں سخت سیکیورٹی میں تیار ہوا۔پھر مجھے پیکٹو ں میں باندھ کر
اور بنڈ لوں کی شکل میں ایک پرنٹنگ پریس میں پہنچا دیا گیا یہا ں کی سیکیورٹی پہلے سے بھی زیادہ سخت تھی۔
ایک صبح مجھے بہت سارے دوسرے نوٹو ں کے ساتھ بڑی بڑی مشینوں میں
سے گزارا گیا۔ اس مرحلے پر درد سے ہماری
چیخیں نکل رہی تھیں لیکن کسی کاریگر کے
کان پر جوں تک نہ رینگی اس مشین میں سے گزرنے کے بعد میرے اوپر بہت خوبصورت نقش و
نگار بن گئے ان میں میری مالیت بھی درج
تھی۔ میری چمک دمک دیکھنے والوں کو بھلی
لگتی تھی میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ بنک بھیج دیا گیا جہا ں سے میں بازار
میں پہنچ گیا اور دوکانداروں، تاجروں،عام عوام،خواتین اور بچوں کے درمیان گردش
کرنے لگا۔ اسی گردش میں ماہ وسال گزرتے چلے گئے۔ کسی نے مجھے تجوری میں رکھا کسی
نے اپنی جیب میں سنبھا لا۔کئی بار مجھے دولہوں کے ہاروں میں ٹا نکنے اور دلہنوں پر نچھاور کرنے کیلئے بھی استعمال کیا گیا کئی بار مجھے جیب کتروں نے بھی ہتھیایا لیکن میں جس کسی کے
پاس بھی پہنچا اس نے مجھے آگے چلتا کیا۔ اب میں کافی خستہ ہو گیا ہوں میری رنگت
ماند پڑ چکی ہے مجھ میں سے بو سیدگی کی
بو سی آنے لگی ہے اب مجھے کوئی بھی شوق سے نہیں
لیتا جس کو دیا جاتا ہوں وہی منہ بنا لیتا
ہے یا دینے والے کو واپس کر دیتا ہے بچے تو مجھے با لکل لینا پسند نہیں کرتے۔ وہ
نئے نوٹ طلب کرتے ہیں کیو نکہ میرا رنگ و روپ اجڑ چکا ہے لگتا ہے میں تھوڑے دنوں کا مہمان ہوں۔
سوال نمبر:6 (الف) " بہم رسانی آب" اور
" چشم زون" کے معنی لکھیں اور اسے اپنے جملوں میں استعمال کریں۔
الفاظ |
معنی |
جملے |
بہم رسانی آب |
پانی کی فراہمی |
شہر بھر میں بہم رسانی
آپ میو نسپلٹی کی ذمہ داری ہے۔ |
چشم زون |
فوراََ۔ اچانک |
آگ چشم زون میں
پورےمکان میں پھیل گئی۔ |
(ب) وثو ق، کما حقہ، ید طولی اور اہل سیف کے معنی
لکھیں اور ان پر اعراب بھی لگائیں۔
الفاظ |
معنی |
اعراب |
وثوق |
یقین |
|
کما حقہ |
پوری طرح |
|
ید طولی |
مہارت |
|
اہل سیف |
جنگ جو |
|
سوال نمبر:7 کسی ایک موضو ع پر مضمون قلم بند کریں۔
جواب: عید میلادالنبی ﷺ
عید میلاد النبیﷺ
کا مبارک دن ہر سال بارہ ربیع الاول کو منایا جاتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ بارہ ربیع
الاول بروزپیر بمطا بق اپریل 570 ء کو مکہ مکر مہ میں صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔آپ ﷺ کی رسالت کے
ساتھ ہی توحید کا سورج طلوع ہوا۔اس روز مسلمان اپنے گھروں میں میلاد کی محفلیں منعقدکرتے
ہیں ۔ مساجد میں علماء کرام آپ ﷺکی حیات طیبہ پر روشنی ڈالتےہیں۔گھروں، مسجدوں،
اور جلسے جلو سوں میں درود وسلام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ مسلمان نوافل پڑھتے اور
خیرات کرتے ہیں۔ غریبوں میں کھا ناتقسیم کیا جاتا ہے۔لوگ اپنے گھروں، گلیوں اور
بازاروں کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ دن سرکاری طور پر منا
یا جاتا ہے۔ ملکی اخبارات خصو صی نمبرشا ئع کرتےہیں۔ریڈیو اور ٹی وی سے خصوصی
پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔شہروں میں ہر علاقے میں بڑی بڑی مہر ابیں بنائی جاتی ہیں
اور ان محرابوں پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی خوبصورت ،رنگین بڑی بڑی تصاویر
لگائی جاتی ہیں۔نعت خواں حضرات اپنی خوش
الحانی سے نعتیں پڑھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو بنی نوع انسان کی رشدو ہدایت
کے لئے ایک ایسے دور میں معبوث فرمایا جب لوگوں میں اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہو چکی تھی۔معاشرے کے "بڑوں
" نے بزور قوت اپنے چھوٹوں اور
کمزوروں کو غلام بنا رکھا تھا۔ ایسے دور میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر احسان
عظیم کیا اور حضور نبی کریم ﷺ کو معبوث فرمایا۔ آپ ﷺ نے ایک پر امن ، خوشحال اور
منصف حکومت قائم کر کے دنیا کے سامنے بہترین مثال پیش کی۔اگر ہم آج بھی اسلام کا مطا لعہ کریں، اس پر عمل کریں اور حسن سیاست،
معاشرت اور معیشت پر عمل کریں تو دنیا میں
ایک بار پھر اسلامی سٹیٹ قائم ہو سکتی ہے۔ہم
سب پر لازم ہے کہ نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر عمل کریں۔ ہمیں اپنے دلوںمیں حضور اکرم ﷺ سے انتہائی محبت اور الفت کو بسا لینا چاہیےجو عید میلادالنبی ﷺ
کا سب سے بڑا تقا ضا ہے۔
تیری ذات سے محبت ترے حکم کی اطاعت
یہی زندگی کا مقصد یہی اصل دین و
ایماں
Comments
Post a Comment